’مجھے آج کے ہندوستان میں جرمنی کا ماضی نظر آتا ہے‘

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 17, 2025365 Views


سیاست کی پیدا کی گئی خلیج ایک بھیانک مستقبل کا اشارہ ہے۔ اس صورتحال کا سبب ہندوتوا کی سیاست ہے۔ افسوس ہے کہ  مجھے آج کے ہندوستان میں جرمنی کا ماضی نظر آتا ہے ۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیےمعروف فکشن نویس رحمٰن عباس کو۔

پہلے ناول پر میں جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا۔

آٹھویں  جماعت سے ہی میں ادبی تقاریب میں شامل ہوتا رہا ہوں،کئی اہم ادیبوں سے قربت رہی ہے۔ گزشتہ 30-35 برسوں پر محیط سرگزشت کے کئی پڑاؤ ہیں اور  ان میں کئی دلچسپ یادیں بھی ہیں۔ اس کا احاطہ بہرحال ایک کتاب کا متقاضی ہے۔

ابتدائی دنوں میں میرا جھکاؤ جدیدیت کی طرف تھا، پھر جدیدیت کی فکشن تعبیر کا میں نے انکار کیا۔اگر اسی موضوع پر لکھنا چاہوں توشمس الرحمٰن فاروقی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی سے خط و کتابت اور پھر ملاقتوں  کا تذکرہ ناگزیر ہوجائے گا۔

ان ناقدین سے میرا گہرا ربط رہاہے۔ ان کے نظریا ت، اردو فکشن پر اس کے اثرات اور ادیبوں کے  مابین  جدیدیت اور ترقی پسندی کے سبب ہوئے تنازعات پر میری ان سے اور دوسرے اہم ادیبوں سے گفت و شنید بھی ایک الگ قصہ ہے۔

مختصر یہ کہ میں نے ان ناقدین کی عداوتیں  دیکھی ہیں اور محبتیں بھی ۔بلاشبہ! یہ کمال لوگ  تھے۔

♦♦♦

کبھی بھوت ، جنات اور جادوگری کی دنیا، میری دنیا تھی

میں رتناگیری کے ایک گاؤں شرنگار تلی میں1974 میں پیدا ہوا۔ بمبئی میں تعلیم وتربیت ہوئی۔

پانچویں جماعت سے ہی میں کہانیاں پڑھنے لگا تھا۔ اسکول کے قریب ایک اسٹال لگتا تھا، جہاں بھوت، جنات ، جادوگری، اوردیومالائی و مافوق الفطرت کرداروں پر مبنی کتابیں ملتی تھیں۔ میں جیب خرچ سے پیسے بچا کر یہ کتابیں خریدتا اور پڑھتا تھا۔

یوں  بھوت ، جنات اور جادوگری  کی دنیا، میری دنیا تھی، اور میرے خواب بھی اسی دنیا سے مستعار تھے۔

مرول اردو ہائی اسکو ل سے میں نے دسویں  کا امتحان پاس کیا۔ پرنسپل معروف شاعر یعقوب راہی تھے ۔ ڈرامہ نگار اقبال نیازی اور رسالہ’تکمیل ‘ کے مدیر و افسانہ نگارمظہر سلیم استاد تھے۔

اقبال نیازی اکثر مجھے لائبریری سے کتابیں پڑھنے کو دیا کرتے تھے۔ نویں جماعت میں خالص ادب سے متعلق کتابیں میں نے اقبال نیازی کی شفقت کے سبب ہی پڑھیں۔

اس طرح  میں پریم چند، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور راجندرسنگھ بیدی وغیرہ سے واقف ہوا۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں ان ادیبوں کا دلجمعی سے مطالعہ کیا۔ اس وقت میں اسماعیل یوسف کالج میں پڑھتا تھا، جہاں محقق میمونہ دلوی صدر شعبہ اردو تھیں۔

ادب کا ذوق پروان چڑھنے لگا اور میں نے گریجویشن کے لیے مہاراشٹر کالج میں داخلہ لیا۔ اس کا سبب رفیعہ شبنم عابدی کی پرکشش شخصیت بھی تھی۔ اخباروں میں ان کی تخلیقات پڑھ چکا تھا۔ کالج میں رفیعہ شبنم عابدی کے علاوہ پروفیسر الیاس شوقی اور پروفیسر انور ظہیر میرے استاد تھے۔

میں اب فکشن کے ساتھ تنقید اور شاعری بھی پڑھنے لگا تھا۔ عبیداعظم اعظمی، سرور حسین سرور، سہیل اختر وارثی، عرفی عنایت اور دوسرے احباب سے دوستی ہوئی۔ یوں ادب پر گفتگو کا دائرہ بڑھنے لگا۔

ہم مکتبہ جامعہ میں بیٹھنے لگے اور شہر کے معروف شعرا اور ادیبوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

علی سردار جعفری، مجروح سلطانپوری، یوسف ناظم، باقر مہدی،ندا فاضلی، اخترالایمان، سریندرپرکاش، عبدالاحد ساز، عبداللہ کمال، عزیز قیسی، سلام بن رزاق، انور خان، ساجد رشید، علی امام نقوی، انورقمر، حفیظ آتش ،مشتاق مومن، مقدر حمید، م ناگ، ساگر سرحدی، اسلم پرویز، عنایت اختراور دوسرے کئی لکھنے والوں سے ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا، پھر ان میں سے کئی زندگی بھر کے لیے دوست بن گئے۔

’ایکا دِشے چا شودھ‘ کا مراٹھی سے اردو میں ترجمہ

مجھے یاد ہے کہ رفیعہ شبنم عابدی کے  شعری مجموعے پر ایک ادبی تقریب سردار جعفری کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی۔ مجروح سلطانپوری اور یوسف ناظم مہمانان تھے۔ شہر کا علمی اور ادبی حلقہ موجود تھا۔یہاں میں نے ایک مختصرسا مضمون پڑھا تھا۔ سردار جعفری نے اس کی تعریف کی تھی ، ادب میں یہی میرا  پہلا انعام تھا۔

انہی دنوں قرۃ العین حیدر بمبئی آئی ہوئی تھیں۔ ان سے  بھی ملاقات اور مختصر سی بات چیت میری یادوں کا سرمایہ ہے۔

بمبئی یونیورسٹی میں ایم اے کے دوران معین الدین جینابڑے ، عبدالستار دلوی اور رفیعہ شبنم عابدی کی خصوصی توجہ ملی۔ اب  میں جدیدیت کا پرستار اور رسالہ’ شب خون‘  کا قاری تھا ۔

شمس الرحمن فاروقی ، نیر مسعود، عرفان صدیقی، محمد علوی، شمیم حنفی وغیرہ سے خط وکتاب ہونے لگی ۔انہی دنوں میری اور قمر صدیقی (مدیر ،رسالہ اردو چینل) کی دوستی پروان چڑھی ۔ ہم دونوں میراجی، راشد، اخترالایمان، شکیب جلالی ، زیب غوری اور بانی کوپسندکرتے تھے۔

اس وقت میراجی کی کتابیں آسانی سے دسیتاب نہیں تھیں۔اس لیے ایک دن  یونیورسٹی کی لائبریری سے قمر صدیقی اور میں نے میراجی کی نظموں کا مجموعہ بھی چرایا۔

یونیورسٹی کیفے ٹیریا ہمارااڈہ بن گیا ۔ سارا سارا دن ہم یہاں بیٹھے رہتے۔ بیانیہ کہانیاں لکھنے والوں اور روایاتی شاعری کرنے والوں کی غیبت سے محفل کی رونق قائم رہتی تھی۔

ایک دن شہر میں گجرات سے محمد علوی تشریف فرما تھے۔ میں نے انھیں یونیورسٹی کیفےمیں مدعو کیا۔ وہ ندا فاضلی کے ساتھ آئے۔ کیفے ٹیریا میں بات چیت شروع ہوئی۔ کسی نےجا کر ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ کو بتایا ، فوراً بلاوا آیا اور ڈپارٹمنٹ کے اصرار پر یہ محفل صدرشعبہ اردو کے کشادہ کمرے میں ہوئی۔ شہر کے کئی اہم شعرا بھی شامل ہوئے۔

سید محمد اشرف اور رحمٰن عباس

سید محمد اشرف ان دنوں بمبئی میں تھے ۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’ڈار سے بچھڑے‘ میں پڑھ چکا تھا۔ میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ سید محمد اشرف نے ہم طلبہ کی مدد بھی کی ۔ اس تقریب میں اقبال نیازی نے سید محمد اشرف کے افسانے’کعبے کا ہرن‘ کو اسٹیج کیا۔ یہ ایک شاندار تقریب تھی۔

♦♦♦

’ شب خون  میں اپنی کہانی دیکھ کر خوشی ہوئی

 ایم اے کا امتحان دیتے ہی میں ملازمت کے لیے بحرین چلا گیا۔ میں محمد جلال اینڈ کمپنی میں کیشیئر تھا ۔ ہماری کمپنی امریکی فوج کو فوڈ سپلائی کرتی تھی۔

 گیارہویں اور بارہویں جماعت میں عربی پڑھ چکا تھا۔ جلدی ہی میں نے مقامی عربی کسی حد تک سیکھ لی اور بحرین کے عربی ادیبوں سے ملنے لگا۔ قاسم حداد سے بھی ملاقاتیں رہیں۔

ایک بار نامور عربی شاعر ادونیس سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کے دو شعری مجموعے میرے پاس تھے۔ ان پر آٹوگراف لیا۔ میرے ملنے والوں میں کئی شیعہ شاعر تھے۔ مجھے بحرین میں جاری شیعہ سنی کشمکش کا علم نہیں تھا۔ ایک دن دفتر نے وارننگ دی کہ اگر میں ان شعرا سے ملتا رہا تو مجھے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

 شمس الرحمن فاروقی صاحب سے قربت بڑھ گئی تھی۔ وہ ’شب خون‘ بھیجتے تھے اور خط میں کیا پڑھنا چاہیے؟ اس بابت مشورے دیا کرتے تھے۔ میں نے ان کے لیے عراق کے معروف جدید شاعر بدرشاکر السیاب کی ایک نظم ترجمہ کی۔ انھوں نے شائع کی اور مشورہ دیا میں عربی سے ترجمے پر توجہ دوں۔

اب میں اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ناول پڑھنے لگا تھا۔ میں نے گارسیا مارکیز، فلابیئر، کافکا، کنڈیرا، وکٹر ہیوگو، ایملی زولا، کامیو، سارتر، بالزاک، نجیب محفوظ، یوسف ادریس وغیرہ کو پڑھا۔ ایک کہانی لکھی’گابو کی بکری اور غارِ عدم‘ اور نیر مسعود کو ارسال کی۔

انھوں نے پڑھ کر فاروقی صاحب کو بھیجی۔ تین ماہ بعد’ شب خون‘ آیا تو اپنی کہانی دیکھ کر میں خوش ہوا۔

اس کے بعد نیر مسعود نے ایک خط میں لکھا کہ ایسی پیچیدہ کہانی کے بعد سادہ کہانیاں لکھنا چاہیے۔ میں ان کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔

میں نے ایک کہانی’ محبت کے خاتمے کی تمہید‘ لکھی۔ فاروقی صاحب نے یہ کہانی بھی شائع کی۔ قمرصدیقی خوش تھا۔

اب یہ زمانہ تھا کہ ہم لوگ بیانیہ ، موضوعاتی اور پلاٹ والی کہانیاں لکھنے والوں کو’ روایت پسند‘ کہنے لگے تھے۔ انھیں اہم ادیب نہیں مانتے تھے۔

عبید اعظم کسی کو پڑھتا نہیں تھا  اور مانتا بھی نہیں تھا۔ سہیل اختر کلاسیکی شاعری پڑھتا تھا اور معاصرفکشن نگاروں کا صرف مذاق اڑاتا تھا۔ مذاق تو خیر وہ ہم سب کا اڑاتا تھا۔

آصف فرخی سے بمبئی میں ایک ملاقات ہوئی تھی۔ بحرین سے ان سے بھی خط وکتابت جاری رہی۔ ان کے مشورے میرے بہت کام آئے۔اسی عرصے میں، میں نے ایک ناولٹ لکھا۔

نخلستان کی تلاش

میں چھٹیوں پر بمبئی آیا تو قمر صدیقی کے ساتھ شمالی ہند کا سفر کیا۔ مقصدشمس الرحمن فاروقی، نیر مسعوداور عرفان صدیقی سےملنا تھا۔ ان دنوں عذرا پروین شاعری میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ مجھے عزیز رکھتی تھیں۔ ان سے جب ملاقات ہوئی تو زبیر رضوی سے بھی ملاقات ہوئی۔

عذرا نے ایک طویل خط لکھا ہے، جو بیس پچیس صفحات پر پھیلا ہوا۔ان کے پاس احمد ہمیش، ساجد رشید اور فیاض رفعت کے علاوہ کئی لکھنے والوں کی دلچسپ کہانیاں ہیں۔ اس پر کبھی اور… شمالی ہند کے سفر میں نیر مسعود اور فاروقی صاحب سے ادب پر کافی باتیں ہوئی تھیں۔ میں اور قمر اپنے ان دونوں ہیرو سے مل کر بے حد مسرور تھے۔

♦♦♦

ادب کنواں نہیں، سمندر ہے

دو سال کا عرصہ میں نے صرف ناولوں کے مطالعے میں صرف کیا۔ مجھے افسانوں کی دنیا محدود لگنے لگی۔ گارسیا مارکیز نے مجھے متاثر کیا تھا ۔

میں نے بارہا غور کیا کہ کیا ادب اپنے سماج،اپنے ملک، اپنے کلچر، اپنے عہد، عہد کی سیاست، اور سیاسی نظام کی بربریت سے دور رہ سکتا ہے؟

کیا ادب محض تنہائی، وجود کی بے معنویت، مریضانہ کلبیت ، اذیت پسندی، اور زندگی کی اسفلیت کے اظہار سے مشروط ہے؟ میں کافی ڈسٹرب رہا۔

دل نے کہا ادب میں زندگی کی تمام سچائیوں، تلخ حقیقتوں، تمام باطنی اور خارجی عوامل ، مساعد و نامساعد حالات کو طلسماتی بیان اور حقیقت کی پیش کش کارگر اسلوب میں کرسکتا ہے۔

ادب محض بے ہیئت اظہار کا وسیلہ نہیں ہے۔ محض بیماریوں اور اذیت کا اظہار نہیں ہے ۔

ادب محبت اورباطن کے حسین نگارخانے کی زیارت بھی کرسکتا ہے اورمرد اور عورت کے رشتوں کی بوقلونی کو بھی پیش کر سکتا ہے۔

ادب کنواں نہیں، سمندر ہے۔ میرا فکشن کو دیکھنے کا نظریہ بدل رہا تھا۔

نئی صدی کے پہلے سال ملازمت چھوڑ کر بمبئی واپس آیا ۔ خلافت کالج میں بی ایڈ کی ڈگری کے لیے داخلہ لیا۔

اب میں محمد حسن عسکری ، وارث علوی، شمیم حنفی ، گوپی چند نارنگ، باقر مہدی اور دوسرے ناقدین کو بھی پڑھ رہا تھا۔

میں جو کسی زمانے میں’ افسانے کی حمایت‘ کو بغل میں لیے شہر میں پھرتا تھا اور بیانیہ کہانیاں لکھنے والوں سے بحث کیا کرتا تھا، اب وارث علوی کے مضامین میں ڈوب کر ابھررہا تھا۔

اس دنیا میں ادب وہی تھا جس کی طرف میں گارسیا مارکیز اور دوسرے ناول نگاروں کی تخلیقات پڑھ کر بہنے لگا تھا۔

وارث علوی کی کتاب ’اردو فکشن کا المیہ ‘ اب میری پسندیدہ کتاب تھی ۔ میں فکشن کو ایک پیمانے سے ناپنے کا منکر ہو گیا ۔

ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے ایک سال چپلون اور ایک سال رتناگری میں پہلے کالج اور پھر اسکول میں ملازمت کی۔ 2003 میں انجمن اسلام (وی ٹی) میں جونیئر کالج میں لیکچر رکے طور پر میرا تقرر ہوا۔ اب میں ادب پڑھا رہا تھا۔

♦♦♦

میں نے جیل میں منٹو کو یاد کیا

ایک سال بعد میں نے اپنا ناول’نخلستان کی تلاش‘ شائع کیا۔ میرے ادبی سفر میں یہ اشاعت ،مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں چار سیاست دانوں نے ناول کے خلاف بیان دیا۔ ہوم منسٹری نے انکوائری کا حکم دیا۔ مجھے ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ناول پر فحاشی کا مقدمہ ہوا۔

مولانا صاحب اور ایک مسلم منسٹر سرگرم ہوئے، اردو اخباروں نے بہت زہر اگلا۔ایک صبح پانچ بجے پولیس کی دو گاڑیاں میری بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں تھیں۔میں دو روز ارتھر روڈ جیل میں رہا۔

رہائی کے وقت ساجد رشیدجیل کے اندر آئے اور جیل انتظامیہ سے کچھ بات کی، میری رہائی کا مرحلہ آسان ہوا۔ جب میں جیل سے باہر آیا میرے گھر والوں کے علاوہ نقاد اسلم پرویز اور کارٹونسٹ آصف خان باہر کھڑے  تھے۔

آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں اتنے معمولی ناول پر مقدمے کی کیا ضرور ت تھی؟

 اس کا نقصان بہت ہوا۔ اردو اخباروں نے ا تنا منفی رول ادا کیا  کہ میرے لیے کسی ادارے میں ملازمت حاصل کرنا دشوار ہو گیا۔

میں نے جیل میں منٹو کو یاد کیا تھا ، چند ماہ بعد ایک مضمون ’منٹو کی اذیت کا احساس‘ لکھا۔ یہ مضمون ریختہ پر دستیاب ہے۔

اب میں میرا روڈ میں رہتا تھا، جہاں سلام بن رزاق، علی امام نقوی، یعقوب راہی، شمیم عباس، م ناگ، وقار قادری اور سکندر مرزا سے ہفتے میں تین چار دن ملاقات ہونے لگی۔

ان ملاقاتوں میں بحث ادب اور بالخصوص فکشن پر ہوتی۔ انہی برسوں میری دوستی شموئل احمد، پیغام آفاقی، مشرف عالم ذوقی، حسین الحق، شافع قدوائی، اسرار گاندھی، شوکت حیات، شبیر احمد، نورالحسین اور دوسرے فکشن نگاروں سے ہوئی۔

انور قمر اس ناول سے پریشان تھے۔ وہ چاہتے تھے کوکنی کمیونٹی اس ناول پر مقدمہ کرے، ان کے خیال میں اس میں اردو کلچر اور کوکنی قوم کا مذاق اڑایا گیا  تھا

سال  2009 میں میرا دوسرا ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی ‘ شائع ہوا۔ اس ناول کا اجرا سلام بن رزاق کے ہاتھوں ہوا۔ ممبئی پریس کلب میں ساجد رشید، یعقوب راہی، مقدر حمید، اور وقار قادری نے نظامت کرتے ہوئے اظہارِ خیال کیا ۔

انور قمر اس ناول سے پریشان تھے۔ وہ چاہتے تھے کوکنی کمیونٹی اس ناول پر مقدمہ کرے، ان کے خیال میں اس میں اردو کلچر اور کوکنی قوم کا مذاق اڑایا گیا  تھا۔ ان کی خواہش اور ناول کی زیراکس  کاپیاں تقسیم کرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔

ساجد رشید نے ناول پر گفتگو کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا اور کہا تھا؛


’شہر میں ایک افسانہ نگار کے پیٹ میں یکایک داڑھی نکل آئی ہے۔‘


اس ناول کی اشاعت میں مشرف عالم ذوقی نے اہم رول ادا کیا، لیکن ناول کی پشت پر ذوقی نے کچھ زیادہ تعریف کر دی تھی۔ میرے بمبئی کے احباب اس فلیپ سے ناخوش تھے۔

♦♦♦

پہلے ناول پر جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا

میرا تیسرا ناول ’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ‘ 2011  میں شائع ہوا۔ اس ناول پر مجھے ریاست مہاراشٹر کی اردو اکاڈمی کا بہترین فکشن کی کتاب کا انعام ملا۔ جب ایوارڈ لینے پہنچا تو اسٹیج پر وہی منسٹر کھڑے تھے جو پہلے میرا خلاف سرگرم رہ چکے تھے۔ میں مسکرایا تو وہ بھی مسکرائے۔

اس ناول پر مجھے ریاست مہاراشٹر کی اردو اکاڈمی کا بہترین فکشن کی کتاب کا انعام ملا۔

اس ناول کے چار ایڈیشن عرشیہ پبلی کیشنز سے چھپ چکے ہیں اور اسی سال پاکستان میں’ کولاج پبلی کیشنز ‘نے ناول شائع کیا ہے۔ 2016 کے جشنِ ریختہ میں میرے چوتھے ناول ’روحزن‘ کا رسم اجرا ‘ ہوا۔ محموعلوی، آصف فرخی، محمد حمید شاہد، شمیم عباس، فرحت احساس اسٹیج پر تھے۔

2016 کے جشنِ ریختہ میں میرے چوتھے ناول ’روحزن‘ کا رسم اجرا ‘ ہوا۔

اس ناول نے ادبی سفر کی مشکلیں آسان کیں ، ادیبوں، قارئین اور ناقدین نے پسند کیا۔ اپنے پہلے ناول پر میں جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا۔ اب میں مطمئن تھا۔

ایک سال بعد جرمنی سے الموٹ دیگنیر Almuth Degenerنے ای میل کیا اورروحزن کے ترجمے کی اجازت طلب کی۔ دروپدی ورلاگ Draupadi Verlag نے ناول Die Stadt, Das Meer, Die Liebe  کے نام سے 2018 میں شائع کیا۔

سوئٹزر لینڈ میں لٹریچر ہاؤس(زیورخ) نے فروری 2018میں ’ہندوستانی ادب کے دن‘ کے تحت ایک تقریب منعقد کی تھی وہاں اس ناول پر گفتگو ہوئی۔ جون تا مارچ 2018 میں نے جرمنی کا ایک اور سفر کیا ۔

روحزن پر جرمنی کی کئی یونیورسٹیز اور ادبی انجمنوں نے پروگرام کیے جس میں الموٹ اور میں نے ناول سے ریڈنگ کی ، ناول پر گفتگو کی۔ روحزن کو جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے’ لٹ پروم گرانٹ‘ ملی تھی جو جرمن فارین آفس اور سوئس کلچرل فنڈ مشترکہ طور پر دنیا کی معیاری کتابوں کی یورپ میں اشاعت کے لیے دیتے ہیں۔

اپنے پہلے ناول پر میں جیل گیا، ’روحزن‘ مجھے تین بار یورپ لے گیا۔

ان خبروں کی اشاعت اردو اور نگریزی اخباروں میں ہوئی، 2018 میں جب ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کا اعلان ہوا تو وہ روحزن کے نام تھا۔ بعدازاں ،پینگوئن انڈیا نے روحزن کے حقوق خریدے اور انگریز ی ایڈیشن مئی 2022 میں شائع ہوا۔

ہندی ایڈیشن2024 میں وانی پرکاشن نے شائع کیا ہے۔ مجھ پر سے فحش نگاری کا لیبل اب اتر چکا تھا ۔2024 میں پینگوئن انڈیا نے’ خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ‘ کو On the Other Side کے نام سے شائع کیا۔ یہ ترجمہ معروف شاعر ریاض لطیف نے کیا ہے۔

اس طرح اب تک میری گیارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں سات ناول ہیں۔ ان کے علاوہ میری ایک کتاب ’اکیسویں صدی میں اردو ناول اور دیگر مضامین ‘ ہے۔ ایک کتاب ’اکیسویں صدی کی دہلیز پر اہم اردو ناول‘ ساہتیہ اکیڈمی کے لیے مرتب کی ہے۔ ساجد رشید  پر ایک مونوگراف این سی پی یو ایل کے لیے لکھا ہے۔ ایک کتاب ’ایکا دِشے چا شودھ‘ کا مراٹھی سے اردو میں ترجمہ شریں دلوی کے ساتھ مل کر کیا ہے۔اس کے لیے علاوہ کچھ کتابیں میں نے دورانِ تدریس بچوں کے لیے لکھیں، جنھیں میں اپنے ادبی کام میں شامل نہیں کرتا۔

اب تک میری گیارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں سات ناول ہیں۔

 اب میں کچھ اور سنجیدہ لکھنا چاہتا تھا۔

ہندوستان میں اقلیتوں کو درپیش خطرے بڑھ رہے تھے۔ ہندوتوا پھیل رہا تھا۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی تھی۔ماب لنچنگ کی اصطلاح عام ہو گئی تھی۔ میڈیا ہندوتوا کا ترجمان بن گیا تھا۔ میں نے’ زندیق‘ کا خاکہ تیار کیا، جسے یورپ کے ممتاز ادارے ’گراسنگ بارڈر ‘ نے ناول ریسرچ گرانٹ کے لیے منتخب کیا۔

میں نے 2019 میں جرمنی، پولینڈ، اسٹریا، چیک ریپبلیک اور فرانس کا سفر نازی ازم، فسطائیت اور نسل پرستی کو سمجھنے کے لیے کیا۔ ان ممالک میں تعمیر کنسنٹریشن کیمپوں میں گیا اور ہٹلر کے عروج ، نازمی ازم کے سیاسی ایجنڈے اور نسل پرستی کے مختلف مراحل پر یورپ کے لکھنے پڑھنے والوں سے تبادلہ خیال کیا۔

زندیق تقریباً 800 صفحات پر مشتمل ہے اور ڈسٹوپین ناول ہے۔ اس ناول کے ہندوستان میں تین ایڈیشن شائع ہوئے ہیں، پاکستان میں دوسرا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے۔

ناول کو دو ریاستی اکاڈمی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ معروف فکشن نقاد مقصود دانش نے ایک کتاب اس ناول پر لکھی ہے جس کا نام ہے، ’اردو ناول کی نئی دنیا: ز ندیق‘۔

گوپی چند نارنگ اپنی عمر کے آخری دنوں میں اس ناول کا مطالعہ کر رہے تھے۔ وہ امریکہ میں تھے۔اکثر مجھے ٹیکسٹ کرتے اور ناول کی تعریف کرتے۔

یوں دیکھا جائے توزندیق لکھنے کا ایک سبب ہندوستان کی سیاسی بساط کا تجزیہ کرنا بھی تھا۔ دراصل، میرا بچپن گنگا جمنی ثقافت کے سائے میں گزرا  ہے۔ میرے گھر ہندو دوستوں کا آنا جانا  روزانہ کا معمول تھا۔ میں بھی اپنے ہندو اور عیسائی دوستوں کے سبھی تہواروں میں شامل ہوتا تھا۔

زندیق لکھنے کا ایک سبب ہندوستان کی سیاسی بساط کا تجزیہ کرنا بھی تھا۔

اب یہاں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان سیاسی نظام نے الیکشن جیتنے کے لیے دوریاں پیدا کی ہیں۔ یہ دوریاں  بڑھتی جا رہی ہیں ۔اس دوری اور سیاست کی پیدا کی گئی خلیج ایک بھیانک مستقبل کا اشارہ ہے۔

اس صورتحال کا سبب ہندوتوا کی سیاست ہے۔ مسلم معاشرے کی بھی اپنی کمزوریاں ہیں۔ ناول ان کا احاطہ کرتا یے۔ زندیق میں  میں نے تفصیل سے جرمنی میں نازی ازم کے فروغ کا تجزیہ کیا۔

ناول کا ایک موضوع ہی جرمنی اور مغرب کا ماضی اور برِصغیر کی اقلیتوں کو درپیش خطرے ہیں۔ مجھے لگتا ہے آج کا برِصغیر جرمنی کے 1930 میں ہے جہاں نفرت کی سیاست غالب سیاسی روش تھی۔

آج کا ہندوستان بدنصیبی سے جرمنی کا ماضی لگ رہا ہے۔ فکشن میں ان خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن پرامید ہوں۔نفرت کی سیاست کو ہماری شاندار تہذیب ایک دن ضرور شکست دے گی۔

♦♦♦

ادب کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے وقت

 میرا چھٹا ناول ہے ’ ایک طرح کا پاگل پن‘ جسے ریختہ پبلی کیشنز نے 2023 میں شائع کیا ہے۔ پاکستان میں سٹی بک پوائنٹ کراچی نے اس ناول کو شائع کیا ہے۔ میرا تازہ ناول ،’نژداں‘ ہے۔ یہ ناول اسی سال ہندوستان اور پاکستان میں ایک ساتھ شائع ہوا ہے۔پاکستان میں عکس پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

 ناول نگاری کا میرا یہ سفر جاری ہے۔ میں نے ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشاکش سے ڈسٹرب ہو کر افسانے لکھنا ترک کر دیا تھا۔ اب کہیں جا کر میں نے تازہ افسانے لکھے ہیں۔ یہ مجموعہ ’بومنے اسٹوریز ‘ کے نام سے اس سال کے اختتام تک شائع ہوگا۔

دوستو! ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں نے اردوکو بہت کچھ دیا ہے ۔ اب کافی وقت بیت چکا ہے۔ پرانے اختلاف میں وقت گنوا نا بے وقوفی ہے۔ ادب کا ایک ہی اصول ہے جو اچھا ہے بچ جاتا ہے۔ ادب کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے وقت۔

چنانچہ ہمیں ترقی پسندوں اورجدیدیت پسندوں کی اچھائیوں اور خوبیوں سے سیکھنا چاہیے اور خرافات کو نظرانداز کر دینا چاہیے۔یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فکشن اپنے ملک، اپنے سماج، اپنے کلچر، اپنے شہر ، اپنے ماضی ،اور آدمی کے باطن کا تخلیقی اظہار ہے۔

دوستو!  ہمیں چے خف کی طرح  جو ہے اس ’ہے‘ کو تخلیق میں بدلنے پر غور کر نا چاہیے۔ لیکن جو ہے، اسے کافکا، بورخیس، گارسیا مارکیز ، ساراماگو، کنڈیرا اور پاموک کی طرح بھی لکھا جاسکتا ہے، یہ یاد رکھنا ہے۔ اور نئی راہیں تلاش کرنا ہے۔

اس سیریز کے مضامین  پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...