فطرت سے محبت، ایمان کا حصہ ہے

AhmadJunaidISLAMIC INFO.July 14, 2025366 Views

کامران رضا عطاری

ماحولیاتی تحفظ، آج کی دنیا کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے جو صرف سائنسی یا سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ ایک اخلاقی، سماجی اور مذہبی مسئلہ بھی ہے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام صرف عبادات اور عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو محیط کرتا ہے، چاہے وہ فرد کی زندگی ہو یا سماج کا نظم و ضبط، تجارت ہو یا عدل، اور یہاں تک کہ فطرت اور ماحول سے متعلق امور بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کو بھی اسلامی تعلیمات کے دائرے میں شامل کیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں ماحول، فطرت، پانی، درخت، جانور، ہوا اور زمین سے حسنِ سلوک کے متعدد احکام موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام نے صدیوں قبل ماحولیاتی مسائل کی نشان دہی کی اور ان کے حل تجویز کیے۔

اسلام میں انسان کو “خلیفہ” یعنی اللہ کا نائب قرار دیا گیا ہے اور اس منصب کے تحت اس پر زمین کی نگہداشت کی ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔” اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کو زمین پر صرف رہنے یا فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین پر عدل و توازن کو قائم رکھے اور اس کی بہتری کے لیے کردار ادا کرے۔ ماحولیاتی نظام میں عدم توازن پیدا کرنا، فطرت سے چھیڑ چھاڑ کرنا یا وسائل کو بے جا ضائع کرنا ایک قسم کی خیانت ہے، کیونکہ زمین اور اس کے تمام وسائل دراصل اللہ کی ملکیت ہیں اور انسان ان کا امین ہے۔

قرآن کریم بار بار “میزان” یعنی توازن کا ذکر کرتا ہے۔ سورۂ رحمن میں فرمایا گیا: “اور اس نے توازن قائم کیا تاکہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔” اس میزان یا توازن کا مطلب صرف معاشرتی عدل نہیں بلکہ کائناتی اور فطری توازن بھی شامل ہے۔ جب ہم ماحول کو آلودہ کرتے ہیں، درخت کاٹتے ہیں، پانی کے ذخائر کو زہر آلود بناتے ہیں یا جانوروں کا بے دریغ شکار کرتے ہیں تو ہم اس توازن کو بگاڑتے ہیں جس کا نتیجہ موسمیاتی تبدیلیوں، بیماریوں، آفات اور قدرتی وسائل کی قلت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اسلام نے فطرت کے ہر عنصر کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “زمین تمہاری ماں کی طرح ہے، اس کا خیال رکھو۔” اس تشبیہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے زمین کے ساتھ محبت، شکرگزاری اور نرمی کا رویہ اپنانے کا حکم دیا ہے۔ درخت لگانے کی ترغیب دینا، پانی ضائع نہ کرنا، جانوروں کے ساتھ نرمی برتنا، حتیٰ کہ راستے سے کانٹے یا پتھر ہٹا دینا بھی نیکی کے زمرے میں آتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کی صفائی اور بہتری کو دین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

ماحول دوست طرز زندگی اسلام کی عملی سنتوں میں بھی شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی سادگی، صفائی، اعتدال اور کفایت شعاری کی روشن مثال ہے۔ آپ ﷺ وضو میں پانی کی مقدار کو محدود رکھتے تھے، چاہے آپ دریا کے کنارے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پانی جیسا قیمتی سرمایہ کبھی ضائع نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ بظاہر بہت زیادہ دستیاب ہو۔ اسی طرح آپ ﷺ نے حکم دیا کہ درختوں کو بلاوجہ نہ کاٹا جائے اور حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی درختوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ جانوروں کو بھوکا پیاسا رکھنا یا ان کو تفریح کا ذریعہ بنانا ممنوع قرار دیا گیا۔

اسلامی فقہ میں بھی ماحول سے متعلق متعدد اصول موجود ہیں، جن میں “لاضرر” (نہ خود کو نقصان دینا نہ دوسروں کو) اور “دفع الضرر مقدم علی جلب المنفعۃ” (نقصان کو دور کرنا فائدہ حاصل کرنے سے مقدم ہے) جیسے اصول شامل ہیں، جو ماحولیاتی قانون سازی اور پالیسیاں بنانے میں بنیادی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اسلامی نظریۂ معیشت بھی استحصال کی بجائے عدل و توازن پر قائم ہے، جو ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نظریہ دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو روکنے اور فطری ذرائع کا پائیدار استعمال سکھاتا ہے۔

آج کے جدید دور میں جب صنعتی ترقی، آبادی کا پھیلاؤ اور بے قابو ترقی ماحول کو تباہ کر رہی ہے، تو اسلامی اصول ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ترقی وہی بہتر ہے جو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اسلام “ترقی برائے ترقی” کے فلسفے کو رد کرتا ہے اور “پائیدار ترقی” کو ترجیح دیتا ہے۔ یعنی ایسی ترقی جو موجودہ ضروریات کو پورا کرے بغیر اس کے کہ آئندہ نسلوں کے وسائل خطرے میں پڑ جائیں۔ اس نظریہ کو آج پوری دنیا میں Sustainable Development کے نام سے جانا جاتا ہے، جبکہ اسلام نے یہ نظریہ چودہ سو سال پہلے ہی پیش کر دیا تھا۔

اسلامی تعلیمات میں نہ صرف ماحول کی حفاظت بلکہ آلودگی سے بچنے کے لیے بھی واضح ہدایات موجود ہیں۔ صفائی کو نصف ایمان قرار دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ دراصل انسان کو ظاہری و باطنی پاکیزگی کے ساتھ ماحول کی طہارت کا بھی درس دیتا ہے۔ جب ایک مسلمان اپنی گلی، محلے اور مسجد کے اطراف کی صفائی کو ایمان کا جزو سمجھ کر اپناتا ہے، تو وہ درحقیقت ماحولیاتی تحفظ کا اسلامی فرض ادا کر رہا ہوتا ہے۔ گندگی پھیلانا، کوڑا کرکٹ سڑکوں پر پھینکنا، یا فضائی آلودگی پیدا کرنا، سب اسلامی روح کے خلاف ہے۔

قرآن مجید بار بار انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے: “کیا تم نے آسمانوں اور زمین میں غور نہیں کیا؟” یہ دعوت محض علمی تجسس کے لیے نہیں بلکہ انسان کو کائنات کی ساخت، فطرت کے اصول، زمین و آسمان کے نظام اور اس کے محافظانہ پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے ہے۔ جب انسان اس سوچ کے ساتھ ماحول کو دیکھتا ہے، تو اس کے اندر قدرت کے تئیں شکر، محبت، احساسِ ذمہ داری اور نرمی پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہی روح ہے جو ایک مسلمان کو ماحول دوست بناتی ہے۔

ماحولیاتی تحفظ صرف درخت لگانے یا پانی بچانے تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مجموعی رویہ ہے جو طرزِ زندگی، معاشرتی نظم، معاشی سرگرمیوں اور حکومتی پالیسیوں سے جڑا ہوا ہے۔ اسلامی حکومتوں کے دور میں بھی ماحول کے حوالے سے واضح پالیسیاں تھیں، جن میں پانی کی منصفانہ تقسیم، زمین کی زرخیزی کا تحفظ، جنگلات کی نگہداشت اور شہروں کی صفائی شامل تھیں۔ آج بھی اگر اسلامی ریاستیں اور معاشرے اپنے اس علمی ورثے کی طرف رجوع کریں، تو ماحولیاتی بحران کا سامنا ایک منظم طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔

ماحول سے متعلق بے حسی نہ صرف ہماری دنیوی زندگی کے لیے خطرہ ہے بلکہ اخروی انجام کے لیے بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کو اس وجہ سے جہنم میں ڈالا گیا کہ وہ ایک بلی کو بھوکا مار بیٹھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک جانور سے ظلم کرنے پر انسان پکڑا جا سکتا ہے تو پوری زمین، پانی، جانور، پرندے، فضا اور درختوں کی تباہی پر ہمارا کیا حال ہوگا؟ اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا کہ “جس نے ایک درخت لگایا، اس کا ہر پھل، سایہ، پتا اور پرندہ اس کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔”

ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے کے لیے ہمیں نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو بدلنا ہوگا بلکہ سماج میں اجتماعی شعور پیدا کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے، مساجد، اسلامی تنظیمیں اور خطباء کو چاہیے کہ وہ ماحول کی اہمیت کو جمعہ کے خطبوں، دروس، اور نصاب کا حصہ بنائیں۔ اسلامی سال کے مختلف مواقع جیسے رمضان، حج، اور محرم جیسے مہینے روحانی اصلاح کے ساتھ ساتھ فطرت کی اصلاح کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر رمضان میں سادگی اور کفایت شعاری کا پیغام دیا جا سکتا ہے، تاکہ وسائل کا زیاں روکا جا سکے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں سے ماحول دوست اقدامات کا آغاز کریں۔ بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کے استعمال میں اعتدال برتنا، پلاسٹک کے کم سے کم استعمال کی کوشش کرنا، درخت لگانا، کوڑے کی تقسیم اور ری سائیکلنگ کو فروغ دینا، یہ سب نہ صرف جدید شہری ذمہ داریاں ہیں بلکہ ایک مسلمان کی مذہبی ذمہ داری بھی ہیں۔ جب ہم کسی بھی کام کو نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے کریں، تو وہ عبادت بن جاتا ہے۔ اس طرح ماحول کی حفاظت بھی ایک عبادت کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔

اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنا فعال کردار ادا کریں۔ ترقی یافتہ ممالک کی اندھی تقلید، جو صرف منافع کو ترجیح دیتے ہیں، ہمیں بھی تباہی کے راستے پر لے جا سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مقامی وسائل، اسلامی اصول، اور علاقائی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ماحول دوست پالیسیز تشکیل دیں۔ شریعت کی روشنی میں بنائے گئے قوانین نہ صرف کارگر ہوں گے بلکہ عوام کے لیے قابلِ قبول اور روحانی تقویت کا ذریعہ بھی بنیں گے۔

اسلامی معاشرہ جب اپنے نظریۂ حیات کو حقیقت میں نافذ کرے گا، تو نہ صرف روحانیت میں اضافہ ہوگا بلکہ فطرت اور ماحول کے ساتھ ایک ایسا ہم آہنگ تعلق قائم ہوگا جو پوری دنیا کے لیے ایک نمونہ بن سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ماحول کو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک سمجھ کر اس کی قدر کریں، اس کا شکر ادا کریں، اور اس کی حفاظت کو اپنا دینی و قومی فرض سمجھیں۔

ماحولیاتی تحفظ صرف ایک سائنسی مسئلہ نہیں بلکہ روحانی ذمہ داری بھی ہے۔ اسلام ایک ایسا مکمل دین ہے جو ہمیں نہ صرف عبادات سکھاتا ہے بلکہ زندگی کو خوبصورت، متوازن اور فطرت سے ہم آہنگ بنانے کے اصول بھی فراہم کرتا ہے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کرتے ہیں، تو ماحول بھی خوشحال ہوتا ہے، سماج بھی، اور روح بھی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی سوچ، عمل اور پالیسیوں کو ماحول دوست بنائیں تاکہ نہ صرف دنیا سنورے بلکہ آخرت بھی کامیاب ہو۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...