اس جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ میں 60 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ پورے محلے صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ اسپتال، اسکول اور مکانات کھنڈرات بن چکے ہیں۔ اور اب جو لوگ زندہ بچے ہیں، انہیں ایک ایسے پنجرے میں بند کیا جا رہا ہے جہاں سے وہ باہر نہیں نکل سکتے، جہاں ان کا انحصار صرف غیر ملکی امداد پر ہوگا اور ان کے تمام بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں گے۔
اس منصوبے کا نفاذ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے تباہ کن ہوگا بلکہ بین الاقوامی اصولوں کے لیے بھی۔ کسی ملک کو انسانی ہمدردی کے نام پر پوری آبادی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی اجازت دینا دراصل ان قوانین کو کمزور کرے گا جو دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے بعد وضع کیے گئے تھے۔ اس سے ان پالیسیوں کو معمول بنایا جائے گا جنہیں کبھی سفارتی سطح پر مجرمانہ قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا سب سے خطرناک پیغام یہ ہوگا کہ طاقتور ممالک بلا خوف و خطر، کسی قوم کو زبردستی اس کی زمین سے بے دخل کر سکتے ہیں اور ان کے سیاسی و سماجی نقشے بدل سکتے ہیں۔
تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہ راستے کس انجام کی طرف لے جاتے ہیں۔ ’گھیٹو‘ میں بند کرنا، نظر بندی اور اجتماعی نقل مکانی جنیوا کنونشن کی صرف خلاف ورزیاں نہیں بلکہ ایسی پالیسیوں کے پیش خیمہ ہیں جو نسلوں تک پھیلنے والی خاموش اور مستقل تشدد کی نمائندگی کرتی ہیں۔
(اشوک سوین سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن و تنازعہ کے مطالعات کے پروفیسر ہیں)