غار، جو تھوڑے ہی وقت میں غلامی کا احساس کرانے لگتے ہیں… میناکشی نٹراجن

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 30, 2025360 Views


مشہور و معروف فلسفی پلوٹو کا ’غار کا فلسفہ‘ یاد ہو آیا۔ جہاں پورا کنبہ غار میں رہتا تھا۔ غار میں پڑتی روشنی سے جو سایے بنتے تھے، اسی کو دنیا سمجھتا تھا۔ شاید سچائی بھی۔ پھر کسی نے ہمت کر کے باہر جانا طے کیا۔ تب غار سے باہر نکلنا مشکل تھا۔ غار کی عادی آنکھوں کو کچھ اور دیکھنے عادت نہیں رہ گئی تھی۔ وہ اسی سے دنیا بھی دیکھنے لگا۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے تبدیلی ہوئی۔ بہت کچھ دکھائی پڑنے لگا۔ جب وہ واپس لوٹا تو لوٹنا اپنے آپ میں مشکل تھا۔ اپنے ساتھیوں کو یقین دلانا کہ سایہ سے پار کچھ ہے، انتہائی مشکل کام تھا۔ ان کو باہر نکالنا تقریباً ناممکن۔ یہاں تک کہ خود کا باہر از سر نو نکلنا بھی تکلیف دہ تھا۔ غاریں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ تھوڑے وقت میں غلامی کا احساس کرانے لگتی ہیں۔ کسی اور کے غار سے اپنا غار شاید نظر بھی آ جائے، لیکن غار میں بیٹھے رہنے سے وہ نظڑ بھی نہیں آتا۔

برسوں پہلے سیپینس غاروں سے نکل کر چل پڑے۔ تب کہیں جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لیکن کیا سیپینس کا کام بغیر غار کے نہیں چل سکتا تھا؟ کیا تبھی کچھ نئے غار بنا ڈالے۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...