عورتوں کی جانب سے ان-آفیشیل ہندو راشٹر کو ایک جواب

AhmadJunaidJ&K News urduDecember 15, 2025362 Views


انوشہ رضوی کی فلم ‘دی گریٹ شمس الدین فیملی’ کے کرداروں کے نام بھلے مسلم ہیں، مگر ان کی اداکاری میں ہندو راشٹر کے کرداروں کی پرچھائی تیر رہی ہے۔ نعروں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ فلم کے پردے پر ان میں سے کوئی براہ راست نظر نہیں آتا، پھر بھی ان کی موجودگی کا احساس گامزن ہے۔ یہی اس  فلم کا کمال ہے۔

‘دی گریٹ شمس الدین فیملی’ ان مسلمان بہنوں کی کہانی ہے جو عظیم ہندو راشٹرکے نعرے سے پیدا ہونے والے حالات سے نبردآزما ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: انوشہ رضوی اور جیو ہاٹ اسٹار)

بہت  دیر تک سوچتا رہا۔ دی گریٹ شمس الدین فیملی  دیکھتے ہوئے ہنسی زیادہ آئی  یا بہت سی ہنسی آتے-آتے نہیں بھی آئی؟ مسلمانوں کی ہر چیز سے نفرت کے اس دور میں یہ کہانی ایک مسلمان خاندان کی ہے یا ایک مسلم فیملی آجکل کی ہندو فیملی یا عظیم ہندو راشٹرکی کہانی کہہ رہی ہے؟ مجھے یہ فلم اس عظیم ہندو راشٹر(ہیرا) کی لگی، جس کے قیام کا سرکاری طور پر تواعلان نہیں کیا گیا ، لیکن غیر سرکاری طور پر اس کا قیام عمل میں آچکا ہے۔

فلم کے کرداروں کے نام بھلےمسلم ہیں، لیکن ان کی اداکاری  میں ایک ہندو راشٹرکی پرچھائی تیر رہی ہے۔ نعروں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ فلم کے پردے پر ان میں سے کوئی براہ راست نظر نہیں آتا، لیکن ان کی موجودگی کا احساس گامزن ہے۔ یہی اس فلم کا کمال ہے کہ جو نہیں ہے، یا کم ہے، وہی اس فلم میں  سب سے زیادہ نظر آ رہا ہے۔ آج جب ہر دوسری یا تیسری فلم میں ایک مسلمان یا کئی مسلمان ولن بنائے جاتے ہیں، انوشہ رضوی ایک مسلم خاندان کو ہیرو کی طرح  پیش کرتی ہیں۔

مسلم پالیٹکل اسپیس میں مردوں کی موجودگی ہے، لیکن فلم کی کہانی میں مسلمان  عورتیں سیاست کا جواب دیتی ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: جیو ہاٹ اسٹار)

اسی وقت، دھرندھر کے رحمن ڈاکو کے ڈانس پر ان-آفیشیل ہندو راشٹر (ہیرا)  کے فلی اینٹائٹلڈشہری فدا ہیں، جھوم رہے ہیں، دی گریٹ شمس الدین فیملی میں مسلم بہنیں ہیرو کی طرح آتی ہیں اور ہجوم کے خوف کا مقابلہ کرتے ہوئےمنگل گیت گانے لگ جاتی ہیں۔ اس گیت کے بول کو ہندواور مسلمان میں تقسیم کرنا ناممکن ہے۔ دہلی کے ایک بند کمرے میں اس ہندوستان کو بچا کر رکھنا اور بچائے رکھنے کا اعلان کرتی ہیں ، جس بھارت کے مٹا دینے کا فتح جلوس روز نکلتا رہتاہے۔

دی گریٹ شمس الدین خاندان میں کوئی مسلمان مرد ہیرو نہیں ہے۔ کوئی اویسی جیسی شعلہ انگیز تقریر نہیں کر رہا، کوئی عمران پرتاپ گڑھی کی طرح شعر وشاعری نہیں سنا رہا اور نہ ہی کمیٹیڈہوتے ہوئے بھی شاہنواز حسین کی طرح کارکن اور لیڈر کے درمیان جھولتا نظر آ رہا ہے۔ ایسا کوئی مرد نہیں ہے۔ مسلم پالیٹکل اسپیس میں مردوں کی موجودگی ہے لیکن دی گریٹ شمس الدین فیملی کی کہانی میں مسلم خواتین سیاست کا جواب دیتی ہیں۔


انوشہ کی یہ فلم شمس الدین خاندان کی عورتوں کی جانب سے اس ہندوستان کو ایک جواب ہے جو ان-آفیشیل ہندو راشٹرہے۔

آج کتنے ہدایت کار ایسی کہانی کو ہاتھ لگائیں گے، اکثر ایسا لگتا ہے کہ ڈرتے ڈرتے ان کے پاس سنسر کی قینچی سے بچاتے ہوئے ایسی کہانی کہنے کا فن بھی نہیں بچا۔ ممکن ہے ‘دی گریٹ شمس الدین’ سے بھی بہتر کہانی ان کی نظر سے گزری ہو، جس میں کوئی مسلم نام والا کردار ہیرو ہو، گئو رکشا کے نام پر فرضی مقدمے میں پھنسے مسلم نوجوان کی کہانی ہو، لیکن آج کوئی بھی اس کہانی پر فلم نہیں بنائے گا۔


انوبھو سنہا کی فلم ‘ ملک’ ایک استثنیٰ ہے۔ سنسر بورڈ کو پتہ  نہیں کہ اس کا کام کتنا آسان ہو گیا ہے۔ اس کی میز تک پہنچنے والی کہانیاں پہلے ہی سو بار سنسر ہو چکی  ہوتی ہیں۔

اس فلم کا ‘راشٹر’ ایک کمرہ ہے۔ اس کمرے میں ہندو راشٹرنہیں آیا ہے، لیکن اس کے آنے کی دہشت آتی جاتی رہتی ہے۔ دروازے پر ہے۔ کھڑکیوں پر ہے۔ جب بھی دروازے کی گھنٹی بجتی ہے،لگتاہے کہ وہ بھیڑ آ گئی  جس کے آنے کا ڈرکردار جتا رہے ہیں۔ جس بھیڑ کے آنے کے ڈر سے بہت پہلے ہی بانی نے آدتیہ سے دوری بنالی ہے۔ جس نے لکھنے- بولنے سے پہلے حساب لگانا شروع کر دیا ہے کہ جان کی سلامتی کے لیے کتنا بولا جائے۔

دروازے پر بھیڑ کا انتظار ہے، لیکن گھنٹی بجتے ہی آ جاتی ہیں کبھی نبیلہ، کبھی امیتابھ، کبھی حمیراتوکبھی پلوی کو لیے زوہیب چلا آتا ہے۔ بیچ بیچ میں موبائل پر گروگرام کی تشدد کی خبریں بھی الارم کی طرح بجتی  رہتی ہیں۔ جلی ہوئی کار کو کو اپنا مان لینا بھی حمیرہ کے لیے کتنا فطری محسوس ہوتا ہے اور یہ بھی مان لینا کہ اس نے اپنے شوہر کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔ آخر تک، وہ اس یقین سے خود کو الگ نہیں کر پاتی ہے۔ حمیرا کی اداکاری کا یہ حصہ اداکار کا بھی کمال ہےاور ہدایت کار کا بھی۔

یہ فلم ہنسنے-ہنسانے کے لیے بنی ہے، لیکن دو مزاحیہ مناظر کے درمیان اس بھیڑ کی موجودگی اپنے وقت کی سیاست سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ (فوٹو بہ شکریہ: جیو ہاٹ اسٹار)

اگر کوئی تشدد میں مارے جانے کے خوف سے نکل کر گھر لوٹ آئے تو آنے کے بعد بھی لگتا ہے کہ وہ نہیں آیا ہے۔ فلم نے اپنی طرف سے ایسا کچھ نہیں کہا، ہم نے اپنے نقطہ نظر سے ایسے ہی دیکھا ہے۔ اس منظر سے پہلے جب حمیرا اپنے اندرکی دہشت کو سمیٹتے ہوئے اپنی بہن بانی سے کہتی ہے کہ تم باہر کے لیے اپلائی کر دو۔ عین وقت پر انوشہ کا کیمرہ ایسے اٹھتا ہے جیسے جس چھت پر یہ بات کہی جا رہی ہے، اسی چھت سے ایک جہاز نےاڑان بھرا ہو۔ یہ منظر اس وعدے پر شبنم کی طرح آہستہ آہستہ بکھر جاتا ہے، جو آئین کے اوراق میں درج ہے ۔

اس  ایک سین کی وجہ سےدی گریٹ شمس الدین فلم میں بٹوری گئی ساری ہنسی چھوٹ کر گر جاتی ہے۔ انوشہ رضوی کے کرافٹ کا کمال ہے کہ انہوں نے اس فلم میں ایسے بہت سارے راستے بنائے ہیں جن سے ہوکر ملک کا سامنا کیے بغیر ہم تفریح ​​کرتے ہیں اور فلم سے باہر آنے کے بعد تفریح ​​کو بھول کر ملک کے بارے میں سوچنے لگ جاتے ہیں۔

یہ فلم ہنسنے-ہنسانے کے لیے بنائی گئی ہے، لیکن دو مزاحیہ مناظر کے درمیان اس بھیڑ کی موجودگی اپنے وقت کی سیاست سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ بھیڑ آنے والی ہے۔ بھیڑآئے گی ہی ،اس کے بعد بھی بہنوں کے  بیچ  مکروفریب، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، ایک دوسرے کو گلے لگانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جیسے ٹائٹینک ڈوبنے  والا ہے، اور جہاز پر پارٹی پر چل رہی ہے۔ ٹائٹینک ڈوب جاتا ہے، لیکن دی گریٹ شمس الدین کا خاندان اور ان کے خوابوں کا ہندوستان نہیں ڈوبتا ہے۔

ایک مسلم خاندان میں  ہندو لڑکی اور  مسلم لڑکے کا کہنا کہ شادی کرے گا۔ اب یہ صرف شادی کا معاملہ نہیں ہے۔ زوہیب پلوی کے ساتھ آتا ہے، جیسے جیسے عورتوں کی اس پرنظر پڑتی ہے لو جہاد کے نا پر لکھی گئی جھوٹی سرخیاں، کہانیاں،فرضی مقدمےآنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں۔ بھلا ہو رشوت لینے والے جج کا،جو لو جہاد کےخوف کو نظر انداز کرتے ہوئے رشوت کی شرح بڑھا دیتا ہے لیکن شادی  کی رجسٹری  کرا دیتا ہے۔ اس فلم میں کوئی  لو جہاد نہیں کہتا۔ کوئی تبدیلی مذہب کے قانون کا ذکر نہیں کرتا، کوئی عمر قید کی بات نہیں کرتا۔ سب بھیڑ کا نام لیتے ہیں اور بھیڑ کا نام لینے سے ہی یہ سب سنائی دینے  لگ جاتا ہے۔

کہانی کے بیچ بیچ میں پلوی کا فون  جب بھی زور زورسے بجتا ہے، ، پاپا کالنگ، ممی کالنگ، دادی کالنگ ، لگتا ہے کہ بھیڑ کا فون آیا ہے۔


یہ فلم بھروسہ دلاتی ہے کہ نعروں سے ڈرنا الگ بات ہے جب تک اس ملک میں جج رشوت لیتارہے گا، نوٹ بندی کے بعد بھی کیش کا چلن رہے گا، بینک فیل ہوتے رہیں گے، رشوت لے کر  دیپک بھائی بینک میں کیش جمع کرواتے رہیں گےتب تک جینے کے سارے راستے بند نہیں ہوں گے۔بس رشوت  کا ریٹ زیادہ دینا ہوگا۔ رشوت لینے والے افسر اسی سے رشوت لیتے ہیں جومجبور ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مجبور ہندو سے رشوت نہیں لیتے ہیں۔ بس اتنا ہی فرق آیا ہے کہ مجبورمسلمانوں سے تھوڑا زیادہ رشوت لینے لگے ہیں۔


لیکن حمیرا بھی اپنی ماں کا دستخط کرکے 25 لاکھ روپے نقد نکال کر ارم کو دے  دیتی ہے اور ارم سے کوئی  ہندو دوست وکی کاروبار کے بہانے بنا کرجھپٹ لیتا ہے۔ وکی غائب ہو جاتا ہے لیکن  لوٹ آتا ہے توبہانہ بنا دیتا ہے۔ ڈائریکٹر وکی کی 25 لاکھ روپے واپس کرنے کی یقین دہانی کو سب کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے آنے کے وعدے کی طرح چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ ارم ان مسلم خواتین سے مشابہت رکھتی ہیں جو گودی چینلوں  پر جا کراینکر اور ہیرا کی بات کرنے والی پارٹی کی ترجمان بن جاتی ہیں۔ وکی کو معاف کردینا بتاتا ہے کہ ارم اور حمیرا کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔

دریں اثنا، سپریم کورٹ بھی حقیقی دنیا میں سندیسرا برادران کو معافی  دے دیتا ہے۔ سندیسرا برادران نے حکم کے مطابق، 5,100 کروڑ روپے واپس کردیے ہیں اور اب انہیں بینک فراڈ کے کیس سےآزادی مل جائے گی۔

یہی اس فلم کا بھروسہ ہے اور یہی آج  کے دور میں شمس الدین فیملی کی خواتین کا بھروسہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندو راشٹر کے آنے پرکرسی پر بیٹھے لوگوں کا کردار بدل گیاہے۔ وہ سچائی اور انصاف کے دیوتا بن گئے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا ، اور ایساکبھی ہوگا بھی نہیں۔ رشوت کے بغیر ملک کا تصور ہر مذہبی تصور سے خیانت ہے۔ لیکن بہنیں بھی کہاں نماز اور عمرہ کے نام پر ایک دوسرے کو چھوڑتی ہیں۔ اسلام کی پیروی کے نام پرشدت پسند کہے جانے والے مسلم خاندان کی عورتیں ہی ایک دوسرے کو بے نقاب کر رہی ہیں اور پتہ چل رہا ہے کہ فرض سے ایڈجسٹمنٹ  کا معاملہ ہندو خاندانوں کے ایڈجسٹمنٹ جیسا ہی  ہے۔

بہنوں کو انکم ٹیکس کا ڈر ہے، کالا دھن رکھنا گناہ لگتا ہے،لیکن کیش میں مہر کی رقم قبول کرنے کا جواز تلاش کرلیتی ہیں۔ انہیں رشوت  دے کر شادی سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہیں پر کہانی کے کردار زندگی اور ملک میں حاوی مذہب کے خلاف سویٹ مزاحمت کرنے لگ جاتی ہیں۔ آپ اسے معصوم مزاحمت بھی کہہ سکتے ہیں۔ فلم کا پورا پلاٹ بتاتا ہے کہ اس ہندوستان کی سیاست، جو ان-آفیشیل ہندو راشٹر ہے، کا ملک اور خاندان میں اخلاقیات اور انصاف کے قیام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ملک میں جو چل رہا ہے وہی گھروں میں بھی چلتا رہے گا۔

ہر اداکار کی آنکھوں میں کتنا کچھ نظر آیا، لیکن بانی کی آنکھوں میں الگ ہی فلم چلتی رہی۔ (تصویر بہ شکریہ: جیو ہاٹ اسٹار)

ہدایتکار انوشہ رضوی کا کیمرہ آنکھوں کا دیوانہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ تمام کرداروں کی آنکھیں اتنی نکھر کر آئی ہیں۔ کب کس کی آنکھوں میں ہونٹ ہل جاتے، ان پر نظر پڑتے ہی کئی بار یہ  افسوس توہوا کہ کاش کیمرے کے پیچھے میں ہوتا۔ اچھی فلم وہی ہوتی ہے جسے دیکھتے ہوئے آپ خود بھی فلم بنانے لگتے ہیں۔ ہر اداکار کی آنکھوں میں کتنا کچھ نظر آیا، لیکن بانی کی آنکھوں میں الگ ہی طرح کی فلم چلتی رہی، جو اس فلم میں مجسم نہیں تھی اور جسے سمجھنا سنسر کرنے والوں کے بس کی بات نہیں تھی۔

بانی کے طور پر کریتکا کامرا کی اداکاری شاندار تھی، لیکن یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اتنے سارےکرداروں میں کس کا کردار کمزور ہے اور کس کی اداکاری ڈھیلی۔ ایک بند کمرے میں اتنے سارے کرداروں کی شاندار پرفارمنس فلم کو جان بخشتی ہے۔ 90 سال کی فریدہ جلال کی اداکاری فلم میں اپنےاس ہندوستان کی تلاش ہے جس ہندوستان میں انہوں نے اپنے اداکاری کے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس عمر میں فریدہ جلال کی اداکاری کا اعتماد اسی ہندوستان پر یقین کا اظہار کرتا ہے جو کل بھی موجود تھا اور کل بھی موجود رہے گا۔

کئی مبصروں نے کامیڈی کا تذکرہ کیا، لیکن یہ کامیڈی کیسے ہو سکتی ہے؟ مجھے کامیڈی کی تعریف نہیں معلوم، لیکن میں وہ زبان جانتا ہوں جو اس صورتحال کو بیان کرتی ہے، اپنے آپ پر ہنستی ہے۔ اکیلے میں  روتی ہے۔

دی گریٹ شمس الدین فیملی کی کہانی ان مسلمان بہنوں کی کہانی ہے جو ایک عظیم ہندو راشٹرکے نعرے سے پیدا ہونے والے حالات سے نبردآزما ہیں اور ان ہندو خاندانوں سےکہانی کہتی ہے جو اس خوف کو سمجھتے ہیں لیکن ان کے پاس نہ تو اس دور میں جینے اوراس دور سے لڑنے کی زبان ہے۔ جسے آپ لبرل کہتے ہیں، جسے اس فلم میں لبرل کہا گیا ہے۔ فلم ہاٹ اسٹار پر اسٹریم ہورہی ہے۔دیکھیے گا۔

رویش کمار سینئر صحافی ہیں۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...