ملک کے سب سے بڑے پرائیویٹ بینکوں میں سے ایک آئی سی آئی سی آئی نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے عام آدمی اس کی پہنچ سے مزید دور ہو جائے گا۔ بینک نے حال ہی میں میٹرو، شہری اور دیہی علاقوں میں مینیمم سیونگ اکاؤنٹ بیلنس کی حد میں اضافہ کر کے 50 ہزار روپے کر دیا ہے، جو کہ پہلے 10 ہزار روپے تھی۔ یکم اگست 2025 سے کھولے گئے نئے اکاؤنٹس پر یہ نیا قانون نافذ ہوگا۔ یہ گھریلو بینکوں میں سب سے زیادہ کم از کم بیلنس ریکوائرمنٹ ہے۔
ملک کے سب سے بڑے بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) نے تو 2020 میں ہی مینیمم بیلنس کا قانون ختم کر دیا تھا۔ زیادہ تر بینک اپنے روزمرہ کے کاموں اور سرمایہ کاری کو منظم کرنے کے لیے مینیمم بیلنس رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر صارف کا بیلنس اس حد سے نیچے جاتا ہے تو جرمانہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ لیکن دوسرے بینکوں میں یہ حد عام طور پر 2000 روپے سے 10000 روپے کے درمیان ہوتا ہے۔
آئی سی آئی سی آئی نے نیم شہری شاخوں میں مینیمم بیلنس کو 5000 روپے سے بڑھا کر 25000 روپے اور دیہی شاخوں میں 2500 روپے سے بڑھا کر 10000 روپے کر دیا ہے۔ اگر ایچ ڈی ایف سی بینک کی بات کریں تو یہ انضمام کے بعد ملک کا سب سے بڑا پرائیویٹ بینک بن گیا ہے۔ اب میٹرو اور شہری شاخوں میں 10 ہزار روپے، نیم شہری شاخوں میں 5000 روپے اور دیہی علاقوں میں 2500 روپے مینیمم بیلنس کی حد ہے۔
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ آئی سی آئی سی آئی اب امیر صارفین کو اپنی طرف راغب کر رہا ہے، تاکہ مارکیٹ میں ان کی زیادہ حصہ داری ہو۔ ہائی مینیمم بیلنس رکھنے سے بینک کو ایسے صارفین ملتے ہیں جنہیں انشورنس اور بروکریج جیسی مصنوعات فروخت کر کے زیادہ فیس کما سکتا ہے۔ کم بیلنس والے صارفین سے یہ ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ آئی سی آئی سی آئی کے ترجمان نے اس فیصلے کی وجہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
’منی منیجرز‘ کا خیال ہے کہ جیسے جیسے ملک کی جی ڈی پی بڑھ رہی ہے، دولت کی تقسیم غیر مساوی ہوتی جا رہی ہے۔ اس وجہ سے بینک اور مالیاتی ادارے دولت کے انتظام پر توجہ دے رہے ہیں۔ بینکوں کو میوچل فنڈز، پورٹ فولیو مینجمنٹ سروسز اور پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز سے کمپٹیشن مل رہا ہے۔ آر بی آئی کی گائیڈ لائنز کے مطابق بیسک سیونگس ڈپازٹ اکاؤنٹس (بی ایس بی ڈی اے) اوور پردھان منتری جَن دھن یوجنا (پی ایم جے ڈی وائی) کے تحت کھولے گئے اکاؤنٹس میں کوئی مینیمم بیلنس کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بقیہ اکاؤنٹس کے لیے بینک اپنی پالیسی کے مطابق سروس چارجز لگا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ معقول ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔