جموں و کشمیر کے صحت کے شعبے کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ برسوں کی لاپرواہی، پالیسیوں کی عدم تسلسل، سیاسی ترجیحات کی کمی اور عملے کی قلت نے اس شعبے کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ دور دراز علاقوں میں ایک بنیادی طبی امداد بھی شہریوں کے لیے خواب بن چکی ہے۔ ان حالات میں وزیر صحت سکینہ مسعود ایتو کا حالیہ بیان ایک حقیقت پسندانہ، دیانتدار اور فکری انداز کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیا بلکہ ایک تدریجی حل کی ضرورت پر زور دیا۔
سکینہ ایتو کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی قلت ایک وراثتی مسئلہ ہے، جو راتوں رات حل نہیں ہو سکتا۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اکثر سیاسی قائدین فوری اور غیر حقیقی وعدوں کے ذریعے عوامی جذبات کو تسکین دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر سکینہ ایتو نے ایک عملی اور زمینی حقیقت بیان کی ہے۔ گزشتہ چھ برسوں کے دوران جس طرح سے دیہی علاقوں کو نظرانداز کیا گیا، وہاں نہ طبی عملہ پہنچا، نہ انفراسٹرکچر بہتر ہوا اور نہ ہی کسی منصوبہ بند پالیسی کے تحت سہولیات کو استوار کیا گیا یہ ایک کھلا راز ہے۔وزیر موصوفہ نے جن اقدامات کا حوالہ دیا، جیسے 309 ڈگری ہولڈرز کی تقرری اور حالیہ 111 نئے تقرری آرڈرز، ان سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ حکومت اب بیدار ہو چکی ہے اور نظام میں بہتری کی کوششیں جاری ہیں۔ اگرچہ یہ اقدامات خوش آئند ہیں، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ یہ شروعاتی قدم ہیں ایک طویل سفر باقی ہے۔
ان کا یہ اعتراف کہ نئی عمارتیں تو تعمیر ہو گئی ہیں مگر وہاں نہ طبی مشینری ہے، نہ معاون عملہ، بذاتِ خود ہماری منصوبہ بندی کی خامیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ صرف عمارت بنانا ترقی نہیں کہلاتا، بلکہ ان عمارتوں کو فعال، سہولتوں سے آراستہ اور انسانی وسائل سے مالا مال بنانا ہی اصل اصلاح ہے۔یہ امر بھی قابلِ تحسین ہے کہ سکینہ ایتو نے میڈیا، عوام اور تمام محکموں کو صحت کے نظام کی بہتری کے لیے متحد ہو کر کام کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ ایک جامع نقطۂ نظر ہے، کیونکہ نظام صرف حکومت کے زور سے نہیں بدلتا بلکہ اس میں عوامی شعور، زمینی سطح پر نگرانی، میڈیا کا دباؤ اور بیوروکریسی کی دیانتداری بھی شامل ہونی چاہیے .
سکینہ ایتو کی جانب سے صحت کے بحران کو وراثتی مسئلہ قرار دینا نہ صرف ماضی کے حقائق کو تسلیم کرنا ہے بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ وہ اصلاحات کے سفر میں حقیقت سے نظریں نہیں چرا رہیں۔ مگر صرف تسلیم کافی نہیں، ان تسلیمات کو ٹھوس عملی اقدامات میں بدلنا ہوگا۔ بھرتیاں، تربیت، سازوسامان، اور جوابدہی کے نظام کو مستحکم بنانا ہوگا۔ ساتھ ہی، صحت کے شعبے کو سیاسی ایجنڈا نہیں بلکہ انسانی ایمرجنسی سمجھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راہ ہے جو جموں و کشمیر کے لاکھوں عوام کو معیاری طبی سہولیات کی جانب لے جا سکتی ہے۔