شہریت کا ثبوت، این آر سی کی آہٹ؟

AhmadJunaidJ&K News urduJune 28, 2025360 Views


بہار اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے، جس میں 2003 کے بعد شامل ووٹروں سے شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن  نے اسے ‘خفیہ این آر سی’ کہتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے کاٹے جا سکتے ہیں۔

علامتی تصویر ، بہ شکریہ: فری پک

نئی دہلی: بہار میں نومبر 2025 سے پہلے ہونے والے اسمبلی انتخابات سےعین قبل الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ایک اہم فیصلہ لیا ہے اور ریاست میں اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کا عمل شروع کیا ہے۔ اس کے تحت نہ صرف ووٹر لسٹ نئے سرے سے تیار کی جا رہی ہیں بلکہ 2003 کے بعد رجسٹرڈ ووٹرز سے شہریت ثابت کرنے والےدستاویز بھی طلب کیے  جا رہے ہیں۔

اس اعلان کے بعد سے ریاست کی سیاست گرما گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس قواعد کو بی جے پی کی اشارے پر کی گئی کارروائی قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کا مقصد بہار کے لوگوں  کے حق رائے دہی کو چھیننا اور انتخابات سے قبل این آر سی جیسے عمل کو نافذ کرنا ہے۔

سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا ایک ماہ میں 8 کروڑ ووٹروں کی درست دستاویزات کے ساتھ تصدیق ممکن ہے؟ کیا اس کی وجہ سےغریب اور پسماندہ طبقوں کے ووٹ کا حق چھیننے کا خطرہ ہے؟ کیا یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کا قدم ہے یا حکمران جماعت کو ووٹروں کی منتخب تعداد تک محدود کرنے کی چال؟

اپوزیشن کا الزام: ‘یہ ووٹر کے حقوق چھیننے کی سازش

آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے ایکس پر لکھا، ‘بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کا اچانک خصوصی نظر ثانی کا اعلان انتہائی مشکوک اور تشویشناک ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکم دیا ہے کہ تمام موجودہ ووٹر لسٹ کو ردکرتے ہوئے ہر شہری کو اپنا نام ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے نئے سرے سے درخواست دینا ہو گی، خواہ اس کا نام پہلے سے ہی لسٹ میں کیوں نہ  ہو۔ بی جے پی-آر ایس ایس اور این ڈی اے آئین اور جمہوریت کو کمزور کیوں کرنا  چاہ  رہے ہیں؟’

تیجسوی نے ایک اور پوسٹ میں لکھا ہے، ‘وزیر اعظم نریندر مودی نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ بہار کی پوری ووٹر لسٹ کو رد کرے اور صرف 25 دنوں میں 1987 سے پہلے کے کاغذی ثبوت کے ساتھ نئی ووٹر لسٹ تیار کرے۔ انتخابی شکست کے گھبراہٹ میں یہ لوگ اب بہار اور بہاریوں سے ووٹ کا حق چھیننے کی سازش کر رہے ہیں۔ خصوصی نظر ثانی کے نام پر یہ آپ کا ووٹ کاٹیں گے تاکہ ووٹر شناختی کارڈ نہ بن سکے۔ پھر یہ آپ کو راشن، پنشن، ریزرویشن، اسکالرشپ اور دیگر اسکیموں سے محروم کر دیں گے۔’

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے پورے عمل کو ‘خفیہ این آر سی’ قرار دیتے ہوئے کہا، ‘الیکشن کمیشن بہار میں خفیہ طریقے سے این آر سی کو نافذ کر رہا ہے۔ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کروانے کے لیے اب ہر شہری کو دستاویزوں کے ذریعے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہوئے تھےاور یہ بھی کہ ان کے والدین کب اور کہاں پیدا ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ قابل اعتماد اندازوں کے مطابق، صرف تین چوتھائی پیدائشیں ہی رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ زیادہ تر سرکاری دستاویزات میں بڑی غلطیاں ہوتی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ سیمانچل علاقے کے لوگ سب سے غریب ہیں۔ وہ دن میں دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے کھا پاتے ہیں۔ ایسے میں ان سے اپنے والدین کی دستاویزوں کی توقع رکھنا ایک سفاک مذاق ہے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بہار کے غریب لوگوں کی ایک بڑی تعداد ووٹر لسٹ سے خارج ہو جائے گی۔ ووٹر لسٹ میں اپنا نام شامل کرنا ہر ہندوستانی کا آئینی حق ہے۔ سپریم کورٹ نے 1995 میں ہی ایسے من مانی عمل پر سخت سوالات اٹھائے تھے۔ الیکشن کے اتنے قریب ایسی کارروائی کرنے سے الیکشن کمیشن پر لوگوں کا اعتماد کمزور ہوگا۔’

سی پی آئی-ایم ایل ایل نے اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے، ‘اس اسپیشل انٹینسو ریویژن کی نوعیت اور پیمانہ آسام میں کیے گئےاین آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) سے ملتا جلتا ہے۔ آسام میں اس عمل کو مکمل ہونے میں چھ سال لگ گئے اور اب تک آسام حکومت اسے شہریوں کی حتمی فہرست کے طور پر ماننے کو تیار نہیں ہے۔ آسام کی آبادی 3.3 کروڑ تھی، جبکہ بہار میں الیکشن کمیشن صرف ایک مہینے میں تقریباً 8 کروڑ ووٹروں کو کور کرنا چاہتا ہے – وہ بھی جولائی کے مہینے میں، جو بہار میں مانسون اور زراعت کا مصروف سیزن ہے۔’

خط میں مزید لکھا گیا ہے، ‘یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ بہار کے لاکھوں ووٹر ریاست سے باہر کام کرتے ہیں۔ بہار میں اس طرح کی نظر ثانی آخری بار 2002 میں کی گئی تھی، جب وہاں کوئی الیکشن نہیں ہونا تھا اور ووٹروں کی تعداد بھی صرف 5 کروڑ کے قریب تھی۔ ہماری پارٹی بہار میں بے زمین غریبوں کے حق رائے دہی کے لیے سب سے زیادہ سرگرمی سے لڑ رہی ہے، اور ہمیں خدشہ ہے کہ انتخابات سے عین قبل اتنے مختصر وقت کے فریم میں کی گئی یہ خصوصی نظرثانی پورے انتخابی عمل کو افراتفری میں ڈال دے گی، اور بڑے پیمانے پر غلطیاں اور ناموں کو حذف کرنے کے واقعات ہوں گے۔ اس لیے ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ناقابل عمل منصوبے کو فوری طور پر واپس لیں اور ووٹر لسٹ کو معمول کے مطابق اپڈیٹ کریں۔’

ماہرین کا تجزیہ: قانونی خامیاں اور عملی مسائل

انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم اے ڈی آر کے شریک بانی پروفیسر جگدیپ چھوکر نے دی وائر میں لکھے ایک تجزیاتی مضمون میں الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں؛

پہلا؛ 21 سال بعد اچانک نظرثانی کیوں؟

کمیشن نے 2003 کے بعد پہلی بار بہار میں مکمل جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چھوکر نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا پچھلی دو دہائیوں میں اربنائزیشن ، نقل مکانی یا فرضی ناموں کا مسئلہ اچانک سنگین ہو گیا ہے؟ اگر یہ مسائل برقرار تھے تو 21 سال تک کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟

دوسرا؛کارروائی کے لیے وقت کی حد ناقابل عمل ہے۔

پچیس جون سے شروع ہونے اور 30 ​​ستمبر کو حتمی فہرست شائع کرنے کے عمل میں کئی مراحل شامل ہیں جیسے گھر گھر جا کر فارم دو بار پُر کرنا، جانچ پڑتال، ڈرافٹ رول شائع کرنا، اعتراضات کو حل کرنا وغیرہ۔ چھوکر اسے انتہائی پرجوش اور غیر حقیقت پسندانہ مانتے ہیں — خاص طور پر بہار جیسی ریاست میں جہاں تعلیم کی شرح،بجلی کی فراہمی اورنقل مکانی جیسے مسائل ہیں۔

تیسرا؛ شہریت ثابت کرنے کا جواز اور اثر

الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق 2003 کے بعد ووٹر لسٹ میں شامل ہونے والوں کو اپنی شہریت ثابت کرنا ہوگی۔ چھوکر نے سوال اٹھاتے ہیں-

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ووٹ اور اب تک کے انتخابی نتائج غلط اور غیرقانونی ہیں؟

کیا یہ ناموں کو حذف کرنے کے قانونی عمل پر عمل کیے بغیر ووٹروں کے حقوق چھیننا نہیں ہے؟

کیا یہ نام حذف کرنے کے طریقہ کار کے اصول 21اے کی خلاف ورزی نہیں ہے، جو منصفانہ سماعت کا موقع دینے کی بات کرتا ہے؟

چوتھا؛ کاغذ نہیں دکھائیں گے کی گونج

چھوکر نے آخر میں کہا کہ شہریت کے ثبوت کے لیے والدین تک  کےدستاویزمانگنا براہ راست سی اے اے-این آر سی تنازعہ کی یاد دلاتا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج ہوا تھا۔ وہ سوال کرتے ہیں – کیا یہ ووٹر لسٹ میں اصلاح ہے، یا خفیہ این آر سی؟

کیا الیکشن کمیشن شفاف ہے؟

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا، تاہم پروفیسر چھوکر اسے شفافیت کا سراب قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، شہریوں کی ذاتی دستاویز ای سی آئی این ای ٹی پورٹل پر اپلوڈ کیے جائیں گے لیکن انہیں صرف انتخابی اہلکار ہی دیکھ سکیں گے، یہ کیسی ‘شفافیت’ ہے؟

اسپیشل رویژن، شہریت ثابت کرنے کی شرط، مانسون کا چیلنج، دیہی علاقوں کی عملی رکاوٹیں، اور سیاسی الزام تراشیاں – ان سب کے درمیان یہ واضح ہے کہ بہار کے ووٹر لسٹ کے حوالے سے صرف انتظامی بحران نہیں ہے بلکہ آئینی اور جمہوری بحران بھی ہے۔

چھوکر کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا جائے گا بلکہ اس سے ملک بھر میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر بھی سنگین سوالات اٹھیں گے۔

پہلے شہریت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں تھی

پچھلی بار جب ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن’ کیا گیا تھا، تب بوتھ لیول آفیسر گھر گھر جا کر خاندان کے سربراہ سے ‘کاؤنٹنگ پیڈ’ کے ذریعے تفصیلات بھرواتے تھے۔

لیکن اس بار، ہر موجودہ ووٹر کو انفرادی طور پر ایک گنتی فارم بھرنا ہوگا۔ جو ووٹریکم جنوری 2003 کے بعد انتخابی فہرستوں میں شامل کیے گئے ہیں، انہیں  اس کے علاوہ  اپنی شہریت کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔ (وہ لوگ جو اس کٹ آف تاریخ سے پہلے ووٹر لسٹ میں شامل تھے وہ شہری مانےجائیں گے۔)

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘الیکشن کمیشن کا فارم 6، جو نئے ووٹروں کو رجسٹر کرتا ہے، اس میں اب تک صرف اس اعلان کی ضرورت تھی کہ درخواست گزار ہندوستانی شہری ہے – کسی دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی (صرف عمر اور پتہ کا ثبوت درکار تھا)۔ لیکن اس بار بہار میں جاری اس خصوصی نظر ثانی کے لیے ایک نیا اعلان شامل کیا گیا ہے، جس میں شہریت کے دستاویزی ثبوت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔’

الیکشن کمیشن کے حکم میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، کاسٹ سرٹیفکیٹ (ایس سی/ایس ٹی) جیسے دستاویزات کے علاوہ اگر کسی شخص کے والدین کا نام بہار کی ووٹر لسٹ میں یکم جنوری 2003 کو درج ہے تو اسے بھی دستاویز سمجھا جائے گا۔

اگرچہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کتنے لوگوں کو شہریت کا ثبوت فراہم کرنا پڑے گا، لیکن ایک اندازے کے مطابق 2003 سے اب تک تقریباً 3 کروڑ ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل کیے جا چکے ہیں۔

بتادیں کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ووٹر لسٹ کا اسپیشل انٹینسو رویژن بالآخر تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کیا جائے گا۔ یہ سلسلہ بہار سے شروع ہوا ہے، جہاں نومبر سے پہلے اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ یہ عمل بدھ (25 جون) سے شروع ہوا ہے اور 30 ​​ستمبر کو حتمی ووٹر لسٹ کی اشاعت کے ساتھ ختم ہوگا۔

اسپیشل انٹینسیو ریویژن کیا ہے؟

اس عمل کے تحت  بوتھ لیول آفیسرز(بی ایل او) گھر گھر جا کر چیک کریں گے ۔ وہ ووٹروں کو ایک انیومریشن فارم دیں گے، جسے موقع پر پُر کرکے بی ایل او کو واپس کرنا ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اس مہم کے لیے کچھ رہنما اصول مرتب کیے ہیں: اگر کوئی گھر بند پایا جاتا ہے، تو بی ایل او فارم کو دروازے کے نیچے ڈال دے گا اور کم از کم تین بار فارم لینے کے لیے واپس آئے گا۔

ووٹر اس فارم کو آن لائن بھی جمع کراسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد بی ایل او کی طرف سے فزیکل تصدیق کی جائے گی۔

بہار میں تقریباً 7.73 کروڑ ووٹر ہیں۔ گنتی فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ 26 جولائی ہے۔

ڈرافٹ ووٹر لسٹ یکم اگست کو شائع کی جائے گی۔اس کے بعد ووٹر یکم ستمبر تک دعوے اور اعتراضات دائر کرا سکیں گے۔ حتمی ووٹر لسٹ 30 ستمبر کو جاری کیے جانے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ مقررہ وقت تک فارم جمع نہیں کراتے ہیں ان کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جا سکتے ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن نے واضح ہدایات نہیں دی ہیں کہ جن شہریوں کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں ان کی تصدیق کا عمل کس طرح انجام دیا جائے گا۔

شہریت ایکٹ 1955 کی دفعات کے مطابق گنتی کے فارم میں عمر کے تین گروپ تجویز کیے گئے ہیں۔

یکم جولائی 1987 سے پہلے ہندوستان میں پیدا ہونے والے افراد کو اپنی ‘تاریخ پیدائش اور/یا جائے پیدائش’ کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔

یکم جولائی 1987 اور 12 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کو اپنے ثبوتوں کے ساتھ کم از کم والدین میں سے کسی ایک کی تاریخ پیدائش اور/یا جائے پیدائش کا ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔

دو دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اور والدین دونوں کی تاریخ پیدائش اور/یا جائے پیدائش کا ثبوت پیش کریں۔

فارم میں لکھا گیاہے، ‘اگر والدین میں سے کوئی بھی ہندوستانی شہری نہیں ہے، تو اپنی پیدائش کے وقت ان کے درست پاسپورٹ اور ویزا کی ایک کاپی فراہم کریں۔’

اس کے ساتھ ہی اگر کسی شخص کا نام ووٹر لسٹ میں یکم جنوری 2003 یا اس سے پہلے درج ہے تو اسے بھی ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے گا، کیونکہ بہار میں آخری خصوصی نظر ثانی 2003 میں کی گئی تھی۔

فارم میں بیرون ملک پیدا ہونے والے شہریوں اور نیچرلائزڈ شہریوں کے لیے بھی الگ الگ زمرے ہیں۔

تاہم، الیکشن کمیشن نے اس بارے میں کوئی واضح ہدایات نہیں دی ہیں کہ لاوارث بچوں یا یتیم بچوں اور جن کے پاس اپنے والدین کی دستاویزات نہیں ہیں، ان کے معاملے میں کیا کیا جائے گا۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...