یورپی ممالک میں آوارہ کتوں کے حوالے سے بھی سنجیدگی برقرار ہے۔ ہالینڈ میں ایک خصوصی پروگرام کے تحت آوارہ کتوں کا مسئلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ یہاں ایک خصوصی پروگرام چلایا گیا، جس کے تحت زیادہ سے زیادہ کتوں کو پکڑ کر ان کی نس بندی کی گئی۔ ہالینڈ میں کتوں کی پناہ گاہوں پر بھی کافی رقم خرچ کی جاتی ہے۔ یہ پناہ گاہیں کتے گود لینے کے مراکز کی طرح بنائی گئی ہیں تاکہ لوگ آوارہ کتوں کو بھی گود لے سکیں۔ جرمنی میں بھی آپ کو سڑکوں پر آوارہ کتے نظر نہیں آئیں گے۔ یہاں پالتو کتوں کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، ان میں مائیکروچپس لگائی جاتی ہیں اور ان کا بیمہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں آوارہ کتوں کے لیے بنائے گئے ڈاگ شیلٹرز پر بہت پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور عام لوگ ان ڈاگ شیلٹرز سے کتے پالتے ہیں۔ لیکن رومانیہ میں آوارہ کتوں کو پکڑ کر بانجھ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہیں 14 دن تک کتوں کی پناہ گاہ میں رکھا جاتا ہے اور جب کوئی انہیں لے نہیں جاتا تو انہیں مار دیا جاتا ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے آوارہ کتوں کے مسئلے کے دو حل ہیں۔ سب سے پہلے، آوارہ کتوں کو پکڑا جائے، بانجھ کیا جائے اور کتوں کی پناہ گاہوں میں رکھا جائے۔ اور دوسرا، کتوں سے محبت کرنے والوں کو ہندوستانی نسل کے آوارہ کتوں کو گود لینے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
(بشکریہ نیوز پورٹل ’آج تک‘)