سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا امتحان

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 15, 2025370 Views


بہار کے ووٹر دیکھ رہے ہیں کہ کون ان کے حقوق کی حفاظت کر رہا ہے اور کون ان کی خاموشی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔آنے والے انتخابات نہ صرف حکومت بدلنے کی لڑائی ہوں گے بلکہ اس میں اس بات کا بھی امتحان ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمہوریت کی کسوٹی پر میں کون کھرا اترتا ہے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بات اور واضح ہو گئی ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت اور احتساب کا فقدان ہی تنازعات کی اصل جڑ ہے جسے دور کیے بغیر ووٹر لسٹ پر اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ (تصویر بہ شکریہ: الیکشن کمیشن)

بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی صرف ایک تکنیکی عمل نہیں، بلکہ یہ قومی سیاست میں ہلچل کا باعث بھی ہے۔ کل سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ ووٹر لسٹ سے نکالے گئے تقریباً 65 لاکھ ووٹرز کے نام اور نکالنے کی وجوہات عام کی جائے،تاکہ شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جاسکے۔

اس سمت میں ہر ضلع الیکشن افسر کی ویب سائٹ پر یہ تفصیلات ای پی آئی سی نمبر اور بوتھ وائز  دستیاب کرائی جائیں اور اس کے بارے میں  وسیع معلومات اخبارات، دور درشن، ریڈیو اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی جائے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ آدھار کارڈ کو شناختی کارڈ کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے، جس سے ووٹر اپنی شناخت ثابت کر سکیں گے اور انتخابی عمل میں اپنی شرکت کو یقینی بنا سکیں گے۔ اس فیصلے نے پوری بحث کا رخ ہی بدل دیا ہے اور اس مسئلے کو آئینی حقوق کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔

تارکین وطن بہاریوں کی حاشیے پر جاتی آواز

بہار کی سماجی اور اقتصادی حقیقت یہ ہے کہ ‘گھر سے باہر رہنا’ یہاں کوئی استثنیٰ نہیں، بلکہ زیادہ تر خاندانوں کا مقدر ہے۔ کھیت – کھلیانوں  سے لے کر دہلی-ممبئی  کے کنسٹرکشن سائٹ تک، خلیجی ممالک کے مزدور کیمپوں سے لے کر پنجاب کی منڈیوں تک – بہار کے مزدور ہر جگہ اپنی روزی روٹی تلاش کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جانے کا سب سے زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہے، کیونکہ وہ مہینوں یا سالوں تک گاؤں واپس نہیں آ پاتے۔

ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کا موجودہ عمل ان کے لیے کسی آفت سے کم نہیں ہے۔ بوتھ لیول آفیسر سے ملنے کے لیے شہر سے چھٹی لے کر آنا، ضروری کاغذات جمع کرنا اور پھر اس عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کرنا- یہ سب ان کے لیے تقریباً نامحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرافٹ لسٹ سے 65 لاکھ ناموں کا غائب ہونا کوئی حادثاتی واقعہ نہیں ہے بلکہ مزدوروں  کے لیے پیدا کیے گئے بحران کا براہ راست نتیجہ ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں اس نکتے کو واضح طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘صرف دستاویز جمع نہ کرنے کو حق رائے دہی سے محرومی کی بنیادنہیں بنایا جا سکتا اور ایسا اقدام جمہوری حقوق کے منافی ہے۔’ یہ تبصرہ تارکین وطن  بہاریوں کے حق میں ایک اہم قانونی ڈھال بن کر ابھرا ہے۔

سیاسی پیچ اور مقامی ایکوئیشن

بہار کی سیاست میں ووٹر لسٹ صرف ایک انتخابی دستاویز نہیں ہے بلکہ اسے پاور- ایکوئیشن  کی نبض شناسی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت خاص طور پر سیمانچل  کےاضلاع جیسے کشن گنج، ارریہ، کٹیہار اور پورنیہ میں بڑھ جاتی ہے۔ یہاں بی جے پی اس معاملے کو قومی سلامتی اور آبادی کے عدم توازن کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ آر جے ڈی اور کانگریس اسے ‘ووٹ چوری’ اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ قرار دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اس بحث میں ایک نئی تہہ ڈال دی ہے۔

دو ووٹر آئی ڈی کی سیاست

تیجسوی یادو کا دو ووٹر آئی ڈی  والے معاملے میں گھرنا اور پھر نائب وزیر اعلیٰ وجئے کمار سنہا کا نام دو اسمبلی حلقوں میں درج ہونا – یہ صرف قانونی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ بہار کے ووٹر لسٹ مینجمنٹ کی پرانی بیماری کا ٹھوس ثبوت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر ‘دھوکہ دہی’ کا الزام لگاتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بات اور بھی واضح ہو گئی ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت اور احتساب کا فقدان ہی ان تنازعات کی اصل جڑ ہے جسے دور کیے بغیر ووٹر لسٹ پر اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے راہل گاندھی اور اپوزیشن کو واضح اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے۔ اب راہل گاندھی مضبوطی سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کا احتجاج کسی پارٹی کی سیاست کا حصہ نہیں تھا، بلکہ آئین اور عام ووٹر کے حقوق کے تحفظ کے لیے تھا۔ اس فیصلے سے ان کے ‘ایک شخص، ایک ووٹ’ کے نعرے کو قانونی جواز اور عوامی حمایت دونوں مل گئی ہیں۔ اس سے ان کی اس دیرینہ دلیل کو نئی تقویت ملی ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت ہی جمہوریت کی اصل بنیاد ہے۔

یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے لیے ایک سخت وارننگ ہے – کہ اگر وہ شفافیت اور انصاف پر کسی بھی طرح سے سمجھوتہ کرنے دیتا ہے تو اس کا اثر بہار جیسی سیاسی طور پر حساس ریاست میں اسمبلی انتخابات تک محسوس ہوگا۔ ایسے میں یہ ایشو اپوزیشن کے ہاتھ میں سب سے مؤثر انتخابی ہتھیار بن سکتا ہے۔

بہار ووٹر لسٹ تنازعہ

بہار میں ووٹر لسٹ کا تنازعہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ 1990 کی دہائی میں جب ذات پات کی ایکوئیشن سب سے زیادہ شدید تھی، ووٹر لسٹ کی نظر ثانی سیاسی چالوں کا ایک اہم اوزار ہوا کرتی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے تنازعات مقامی دائرے تک محدود رہتے تھے، اب میڈیا، سوشل میڈیا اور عدالتی نگرانی کی وجہ سے یہ قومی مسئلہ بن  جاتا ہے۔

آج چیلنج یہ ہے کہ 65 لاکھ ووٹروں کے حقوق کو یقینی بنایا جائے، بغیر کسی ذات پات یا مذہبی تعصب کے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل محض قانونی رسم نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ ایک مضبوط سیاسی سماجی پیغام ہونا چاہیے کہ ‘ووٹ دینے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔’

الیکشن کمیشن کو ڈیجیٹل شفافیت کے ساتھ پورے عمل کو عام کرنا چاہیے، تارکین وطن بہاریوں کے لیے موبائل تصدیقی مراکز قائم کرنا چاہیے، اور کسی بھی ووٹر کا نام حذف کرنے سے پہلے شخصی تصدیق کو لازمی قرار دینا چاہیے۔

بہار کا ووٹر چوکنا ہے، اور وہ دیکھ رہا ہے کہ کون اس کے حقوق کی حفاظت کر رہا ہے اور کون اس کی خاموشی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ آئندہ انتخابات نہ صرف حکومت بدلنے کی لڑائی ہوں گے بلکہ یہ بھی امتحان ہو گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمہوریت کی کسوٹی پر کون کھرا اترتا ہے۔

(پرشانت کمار مشرا آزاد صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...