سروجنی نائیڈو کے امام حسین

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 6, 2025358 Views


ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم  روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔

سروجنی نائیڈو اور علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس اور سوشل میڈیا

آج ہم جس ہندوستان میں جی رہے ہیں،وہاں ہندوؤں کے ذریعے مسلمانوں کاتہوارمنایا جانا اور مسلمانوں کے ذریعے ہندوؤں کے مہاتماؤں/بھگوانوں کی عزت کرنا بھی ایک خبرہے۔

ہمارے سیاستدانوں کی کارستانیوں کے چلتے ہم آہستہ آہستہ یہ مان بیٹھے ہیں کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف سماج میں جیتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہماری بد نصیبی ہی ہے کی یہ سوچ جس نے ملک کو تین حصوں میں بانٹ دیا آج بھی ہمارے ذہنوں میں کائی کی طرح جمی ہوئی ہے اور غلاظت پھیلا رہی ہے۔

بنگال حکومت نے کچھ دن پہلے یہ کہا  تھا کہ محرم کے دن وسرجن کی رسم نہ نبھائی جائے۔ اس سے کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔اس ملک کی تہذیب کسی ایک مذہب سے نہیں بنی بلکہ یہ مختلف مذہب اور کلچر کے امتزاج کا نمونہ ہے۔

میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ کیسے شری کرشن اور شری رام کو مسلمان بھی ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا لازمی حصہ مانتے آئے ہیں،اوران کا احترام کرتے ہیں۔آج میں ایک بنگالی برہمن کی مثال دینا چاہتاہوں کہ  ہندوستان کے ہندو بھی اسلام کی عزت کرنے میں پیچھے نہیں ہیں اورامام حسین کو ہندو بھی سچائی کی علامت مانتے ہیں۔

سروجنی نائڈو حیدر آباد میں بنگالی برہمن فیملی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ہم میں سے زیادہ تر ان کو آزادی کی لڑائی کے باب میں ایک اہم خاتون  رہنما کے طور پر پہچانتے ہیں۔انگریزی ادب میں جن کی زیادہ دلچسپی نہیں ہےوہ شاید یہ  نہیں جانتے ہوں کہ سروجنی ایک بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں۔

 محرم  کے موقع پر ان کی ایک نظم ‘امام باڑا ‘ کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ امام باڑہ  ان کی  کتاب ‘ دی بروکن ونگس ‘(1917) میں شامل تھی۔ اس نظم سے امام حسین کے لیے ان کی محبت اور عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔سروجنی لکھتی ہیں ؛


Out of the sombre shadows
Over the sunlit grass
Slow in a sad procession
The shadowy pageants pass


 

یہ محرم  کے دن لکھنؤ کے امام باڑے میں ہونے والے ماتم کی جگر سوز مثال ہے۔ بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ وہ کالے کپڑے میں ملبوس ماتم کرنے والوں کا موازنہ  کالے سایوں سے کرتی ہیں،اور بتاتی ہیں کہ کیسے یہ کالا رنگ رنج و غم کی علامت ہے۔ان کے مطابق ؛


Mournful, majestic, and solemn

Stricken and pale and dumb

Crowned in their peerless anguish

The sacred martyrs come


 

یہ کالے کپڑے میں ماتم کرنے والے سائے 1400سال پہلے شہید ہوئے امام حسین اور ان کے 71جاں نثاروں کو زندہ کر دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ غمگین ہیں وہی دوسری طرف یہ ماتم کرنے والے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں۔ بھلےہی یہ لوگ آج زخمی ہیں، ان کے جسم سوکھے پتوں کی طرح پھیکے ہیں اور زبان چپ ہے پر یہ بےجوڑ نظر آتے ہیں اپنے اس دکھ میں بھی۔ کیونکہ یہ جو لوگ چلے آ رہے ہیں یہ کوئی اور نہیں یہ تو وہی لائق پرستش اور مقدس شہید ہیں۔

سوچیےآج کے یہ رہنما کیا اپنے مذہب سے اوپر اٹھ‌کر سچائی کے لئے جان دینے والے امام حسین کو لائق عبادت شہید بول پائیں‌گے۔ کاش یہ بول پاتے۔


Hark, from the brooding silence
Breaks the wild cry of pain
Wrung from the heart of the ages
Ali! Hassan! Hussain!


 

وہ آگے لکھتی ہیں، کی یہ جو شام کا سناٹا ہے اس میں غور سے سنو۔ درد بھری وہ چیخ سنائی دے‌گی جو صدیوں سے وقت کے سینے کو دہلا رہی ہے۔ یہ چیخ جو علی، حسن اور حسین کا نام لے رہی ہے۔

 


Come from this tomb of shadows
Come from this tragic shrine
That throbs with the deathless sorrow
Of a long-dead martyr line


اس اندھیرے مقبرے سے، اس منحوس عمارت سے یہ جو کالے سائے آتے دکھتے ہیں یہ ان شہیدوں کی قطاریں ہیں جو بہت پہلے ہمیں چھوڑ‌کر جا چکے ہیں لیکن ان کا دکھ اورغم آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ رہے‌گا۔

آگے اس نظم کے اختتامیہ میں سروجنی یہ واضح  کرتی ہیں کہ کیوں وہ یہ مانتی ہیں کی امام حسین کی شہادت کا غم لافانی ہے اور وقت کی بندشوں سے آزاد ہے۔وہ لکھتی ہیں ؛


Kindle your splendid eyes
Ablaze with the steadfast triumph
Of the spirit that never dies
So may the hope of new ages
Comfort the mystic pain
That cries from the ancient silence
Ali! Hassan! Hussain!


اپنی آنکھوں کو روشن کر لو اس شعلہ سے جو کہ سچائی کی علامت ہے، یہ وہ سچائی ہے جو مستحکم ہے۔ یہ سچ لافانی ہے کبھی نہیں مرتا۔ اور آنے والے وقت کی امید بھی اس روحانی رنج میں چھپی ہے جو کہ تاریخ کے کسی کونے سے چیخ چیخ کر گریہ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے : ‘ علی! حسن! حسین! ‘۔

سروجنی کی یہ نظم ان کے یقین اور عقیدت کی مظہر ہے کہ امام حسین مسلمان تھے یا نہیں اس سے پہلے یہ حقیقت اہم ہے کہ وہ سچائی کے لئے اپنے 71جاں نثاروں کے ساتھ اپنے سے کہیں زیادہ ‘طاقتور’بادشاہ ‘یزید ‘ کی فوج کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ ان کی ہمت،ان کا جذبہ کہ سچ کے لئے جان کی پرواہ نہیں کی جاتی صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں پوری انسانیت کے لئے سبق ہے۔

ہائے ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم  روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔

یہ مضمون 1 اکتوبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا، نظم بہ شکریہ: پوئٹری نوک ڈاٹ کام



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...