کلام اور قلم دو ایسے ہتھیار ہیں جو بظاہر نرم اور معصوم دکھائی دیتے ہیں، مگر ان کے اثرات گہرے، دیرپا اور کبھی کبھار ناقابل تلافی بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ انسان کی زبان اور اس کے لکھے ہوئے الفاظ اس کی شخصیت، سوچ، نیت اور اندرونی دنیا کا عکس ہوتے ہیں۔ زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ کسی کی روح کو جھنجھوڑ سکتا ہے، کسی کا حوصلہ بلند کر سکتا ہے، اور کسی کی دنیا اجاڑ بھی سکتا ہے۔ اسی طرح قلم کی نوک سے لکھے گئے جملے، چاہے کسی کتاب، اخبار، سوشل میڈیا یا خط میں ہوں، وہ معاشروں کی سوچ، رویوں اور اقدار پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اور قلم کو نہایت سنجیدگی اور احتیاط سے استعمال کرنا لازم ہے۔دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انقلابات کی ابتدا کسی تلوار سے نہیں بلکہ زبان اور قلم سے ہوئی ہے۔ خواجہ حسن نظامی ہوں یا علامہ اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد ہوں یا فیض احمد فیض، ان سب نے اپنے کلام اور قلم کے ذریعے ایسی روشنی پھیلائی جس نے لاکھوں دلوں کو روشن کیا، قوموں کو جگایا، اور حق و انصاف کے علم بلند کیے۔ لیکن اسی زبان اور قلم کو جب نفرت، تعصب، جھوٹ یا فتنہ انگیزی کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے، ہر فرد سوشل میڈیا پر اپنا کلام اور اپنے خیالات شیئر کر رہا ہے۔ ایک کلک میں ایک پوسٹ ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسے وقت میں کلام اور قلم کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم جو بول رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں، کیا وہ کسی کی دل آزاری کا سبب تو نہیں بن رہا؟ کیا وہ سچائی اور بھلائی کو فروغ دے رہا ہے یا نفرت اور جھوٹ کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے؟اسلام بھی زبان کی حفاظت پر بہت زور دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ بھلا بولے یا خاموش رہے۔” اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے۔ بے وجہ بولنا، کسی کی غیبت کرنا، تہمت لگانا یا دل دکھانے والے الفاظ کہنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ انسان کی اخلاقی پستی کی علامت بھی ہے۔ ایسے ہی قلم سے جھوٹ لکھنا، کسی کو بدنام کرنا یا غلط معلومات پھیلانا بھی گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔قلم ایک امانت ہے، جسے امانت داری سے استعمال کرنا اہل قلم کا فرض ہے۔ جو لوگ صحافت، تعلیم یا ادبی میدان میں قلم کو اپنا ذریعہ اظہار بناتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ حقائق کی تصدیق کے بغیر کچھ نہ لکھیں، کسی کے خلاف بغض یا تعصب سے قلم نہ چلائیں، اور اپنی تحریروں میں توازن، نرمی اور حکمت کا دامن نہ چھوڑیں۔ کیونکہ ان کی تحریریں صرف کاغذ پر نہیں، بلکہ قاری کے ذہن اور دل پر نقش ہو جاتی ہیں۔معاشرے میں پھیلنے والی بہت سی غلط فہمیاں، فسادات، اور باہمی دشمنیاں دراصل زبان یا قلم کے غلط استعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ایک جھوٹی خبر، ایک اشتعال انگیز تقریر یا ایک غلط فہمی پر مبنی پوسٹ پورے شہر کا سکون برباد کر سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہر لفظ کو تول کر بولیں، اور قلم اٹھانے سے پہلے یہ سوچیں کہ ہمارے الفاظ کا اثر کیا ہوگا۔ادب، شاعری اور صحافت کے شعبے میں خاص طور پر یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ایک شاعر کے اشعار دلوں کو جوڑ بھی سکتے ہیں اور توڑ بھی سکتے ہیں۔ ایک ادیب کی کہانی معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے یا بگاڑ بھی پیدا کر سکتی ہے۔ ایک صحافی کی رپورٹ کسی کے حق میں انصاف کا دروازہ کھول سکتی ہے یا کسی کی زندگی برباد کر سکتی ہے۔ اس لیے ان تمام افراد کو اپنے کلام اور قلم کے معاملے میں نہایت محتاط اور باشعور ہونا چاہیے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ خوشحال، مہذب اور بااخلاق بنے تو ہمیں زبان اور قلم کے استعمال کو تربیت کا حصہ بنانا ہوگا۔ بچوں کو شروع سے یہ سکھانا ہوگا کہ وہ سچ بولیں، نرمی سے بات کریں، اور جو کچھ بھی لکھیں وہ سوچ سمجھ کر ہو۔ اسکول، کالج، اور یونیورسٹی میں اخلاقی تربیت اور کلام کی ذمہ داری کا شعور دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک تربیت یافتہ زبان اور قلم معاشرے کو نئی راہوں پر لے جا سکتے ہیں۔کلام کا حسن صرف الفاظ کے چناؤ میں نہیں بلکہ نیت کی پاکیزگی، انداز کی نرمی اور مخاطب کے مقام کی پہچان میں ہوتا ہے۔ اگر ہم صرف یہ اصول اپنا لیں کہ جو بات ہم اپنے بارے میں سننا پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے بھی نہ کہیں، تو آدھے جھگڑے خود ہی ختم ہو جائیں گے۔ اسی طرح، اگر ہم لکھتے وقت یہ سوچیں کہ جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں، وہ سچ، حق، اور خیر کی نمائندگی کر رہا ہے یا نہیں، تو ہماری تحریروں کا معیار بھی بلند ہوگا اور اثر بھی دیرپا۔آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ زبان اور قلم انسان کے سب سے قیمتی تحفے ہیں، مگر یہ تحفے صرف اسی وقت باعث برکت بنتے ہیں جب ان کا استعمال شعور، علم، اور اخلاق کے ساتھ کیا جائے۔ کلام اور قلم کو بے لگام چھوڑ دینا معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے، جبکہ ان کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا اصلاح، محبت اور امن کی بنیاد رکھتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم سب، خواہ کسی بھی پیشے یا عمر سے تعلق رکھتے ہوں، اپنی زبان اور قلم کی حفاظت کریں اور انہیں بھلائی کا ذریعہ بنائیں۔