سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ووٹ چوری کا پختہ ثبوت دے کر الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں کو بھرے بازار میں بے نقاب کر دیا۔ اب دونوں تلملائے ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا اعتراف کرنے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ دھمکیاں الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی دی گئی ہیں اور بی جے پی کے رہنما اور ترجمان بھی دے رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں چاہیے کہ وہ ان کے ثبوتوں کو ٹھوس شواہد کے ساتھ مسترد کریں۔ لیکن بظاہر ان کے پاس کانگریس رہنما کے ثبوتوں کی کوئی کاٹ نہیں ہے۔
راہل گاندھی ایک عرصے سے یہ الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں مل کر اور منظم انداز میں ووٹ چوری کر رہے ہیں۔ لیکن ان سے ہمیشہ یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا ثبوت پیش کریں۔ انھوں نے چھ ماہ کی محنت و مشقت کے بعد ثبوت فراہم کر دیے تو کہا جانے لگا کہ وہ اپنے دعووں کے ساتھ بیان حلفی داخل کریں ورنہ ان کے خلاف کیس کیا جائے گا۔ کیس تو ان کے خلاف بہت قائم کیے گئے اور ایک بار سازش کر کے ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ختم کرا دی گئی لیکن سپریم کورٹ نے رکنیت بحال کر کے حکومت کے گالوں پر زوردار چانٹا رسید کیا تھا۔ راہل گاندھی نے اپنی جد و جہد سے ثابت کیا ہے کہ وہ مقدمات سے نہیں ڈرتے۔ جس کو مقدمہ کرنا ہو کرے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔