جنگ بندی، ٹی آر ایف، شبھم، سونیا کے آنسو… پرینکا گاندھی نے لوک سبھا میں مودی حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 29, 2025359 Views


پرینکا نے ’آپریشن سندور‘ پر جاری بحث کے دوران لوک سبھا میں جب کہا کہ پہلگام میں جن 26 افراد کی جان گئی، ان میں 25 ہندوستانی تھے، تو برسراقتدار طبقہ کے لیڈران نے ’ہندو-ہندو‘ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔

<div class="paragraphs"><p>لوک سبھا میں اپنی بات رکھتی ہوئی پرینکا گاندھی، ویڈیو گریب</p></div><div class="paragraphs"><p>لوک سبھا میں اپنی بات رکھتی ہوئی پرینکا گاندھی، ویڈیو گریب</p></div>

لوک سبھا میں اپنی بات رکھتی ہوئی پرینکا گاندھی، ویڈیو گریب

user

لوک سبھا میں ’آپریشن سندور‘ پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس جنرل سکریٹری اور رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے آج مودی حکومت کو کئی محاذ پر کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ انھوں نے جنگ بندی، ٹی آر ایف، پہلگام حملہ میں ہلاک شبھم اور گزشتہ روز ایوان میں سونیا گاندھی کے آنسوؤں کا تذکرہ کیے جانے پر اپنی بات مختصر لیکن جامع انداز میں سبھی کے سامنے رکھی۔

اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے پرینکا نے کہا کہ ’’میں ان سبھی جوانوں کو سلام پیش کرنا چاہتی ہوں جو ہمارے ملک کے ریگستانوں میں، گھنے جنگلوں میں، برفیلی پہاڑیوں میں ہمارے ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ جو ہر لمحہ ملک کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ 1948 سے لے کر اب تک، جب پاکستان کی طرف سے کشمیر پر حملہ کیا گیا، ہمارے ملک کی سالمیت کی حفاظت کرنے میں ہمارے جوانوں کا بڑا تعاون رہا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ آزادی ہمیں عدم تشدد کی تحریک سے ملی، لیکن 1948 میں پاکستان کے پہلے حملہ سے لے کر آج تک ملک کی سالمیت کو قائم رکھنے میں فوج کا کردار بہت اہم رہا ہے۔‘‘

مرکزی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے ذریعہ 28 جولائی کو لوک سبھا میں کی گئی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے پرینکا نے کہا کہ ’’کل وزیر دفاع نے ایک گھنٹہ کی تقریر کی، جس میں انھوں نے بہت ساری باتیں کیں، لیکن ایک بات چھوٹ گئی۔ 22 اپریل 2025 کو جب 26 لوگوں کو برسرعام مارا گیا، تو یہ حملہ کیسے اور کیوں ہوا؟ اس کا جواب انھوں نے نہیں دیا۔‘‘ بعد ازاں انھوں نے کچھ تلخ سوال داغ دیے۔ انھوں نے کہا ’’میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ ملک کے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کیا اس ملک کے وزیر اعظم کی نہیں ہے؟ کیا اس ملک کے وزیر داخلہ کی نہیں ہے؟ کیا اس ملک کے وزیر دفاع کی نہیں ہے؟ کیا اس ملک کے این ایس اے کی نہیں ہے؟‘‘

برسراقتدار طبقہ کے لیڈران کی تقریروں پر پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’وزیروں نے پارلیمنٹ میں بہت سی باتیں کہیں۔ تاریخ کی پرانی باتیں سنائیں، لیکن اصل سوال کا جواب نہیں دیا… پہلگام میں حملہ کیسے ہوا، کیوں ہوا؟ یہ سوال آج بھی ذہن میں کھٹک رہا ہے۔‘‘ پرینکا نے پہلگام حملہ میں ہلاک شبھم دویدی کی اہلیہ کا بیان بھی ایوان میں پڑھ کر سنایا جس میں بہت درد چھلک رہا تھا۔ یہ بیان پڑھتے ہوئے پرینکا کچھ جذباتی بھی ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’پہلگام حملہ میں شہید ہوئے شبھم دویدی کی بیوی نے کہا– میں نے اپنی دنیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے دیکھا، وہاں ایک سیکورٹی گارڈ نہیں تھا۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ حکومت نے ہمیں وہاں یتیم چھوڑ دیا تھا۔‘‘ یہ بیان پڑھنے کے بعد پرینکا نے سوال اٹھایا کہ ’’وہاں سیکورٹی کیوں نہیں تھی، ایک بھی جوان کیوں نہیں تھا؟ کیا حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ وہاں روزانہ 1500-1000 سیاح جاتے ہیں؟ وہاں پہنچنے کے لیے جنگل کے راستے سے جانا پڑتا ہے؟ وہاں کوئی علاج کا انتظام تک نہیں تھا۔‘‘ وہ تلخ انداز میں یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’لوگ وہاں اس حکومت کے بھروسے گئے اور حکومت نے انھیں بھگوان بھروسے چھوڑ دیا۔‘‘

پہلگام حملہ کی ذمہ داری لینے والے ٹی آر ایف کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے ایوان کو جانکاری دی کہ اس دہشت گرد تنظیم نے کشمیر میں اپریل 2020 سے 22 اپریل 2025 تک 25 دہشت گردانہ حملے کیے، لیکن حکومت کو اس کی بھنک تک نہیں لگی۔ کانگریس لیڈر نے یہ سوال پھر اٹھایا کہ ’’کیا کسی نے اس کی ذمہ داری لی؟‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’کون ہے یہ ٹی آر ایف۔ 2019 میں یہ گروپ بنا۔ 2020 میں اس نے کشمیر میں دہشت گردی کا کام شروع کر دیا۔‘‘ انھوں نے آگے کہا کہ ’’وزیر داخلہ (امت شاہ) نے یو پی اے حکومت کی مدت کار میں ہوئے تقریباً 25 دہشت گردانہ حملے شمار کرائے تھے۔ ٹی آر ایف نے تو 2020 سے لے کر 2025 تک 25 دہشت گردانہ حملے کشمیر میں کر ڈالے۔ ان حملوں کی میرے پاس پوری لسٹ ہے۔ اس میں 2024 کا ریاسی حملہ بھی شاہے ہے جس میں 9 لوگ مارے گئے تھے اور 41 زخمی ہوئے تھے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’مجموعی طور پر 2020 سے لے کر 22 اپریل 2025 تک ٹی آر ایف نے 41 فوجیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کا قتل کیا۔ 27 عام شہریوں کا بھی قتل ہوا۔ اس دوران 54 افراد زخمی بھی ہوئے۔‘‘

پرینکا گاندھی نے ٹی آر ایف کے تعلق سے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت ہند نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم کا درجہ کب دیا؟ 2020، 2021 یا 2022 میں نہیں، بلکہ 2023 میں دیا۔ یعنی 3 سال بعد۔ 3 سال تک یہ دہشت گردانہ سرگرمیاں کرتے رہے اور آپ نے 2023 تک اسے دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا۔ اس کے پیچھے کیا وجہ رہی؟‘‘ وہ سنجیدگی کے ساتھ کہتی ہیں کہ ’’یہ سب حکومت کی جانکاری میں تھی۔ سب کچھ آپ کے علم میں تھا، لیکن آپ کے پاس ایسی کوئی ایجنسی نہیں تھی جو یہ بتا سکے کہ ایسا کوئی بڑا حادثہ (پہلگام حملہ) ہونے والا ہے۔‘‘

پرینکا گاندھی نے ایک بڑا سوال ’جنگ بندی‘ سے متعلق اٹھایا۔ انھوں نے پوچھا کہ آپریشن سندور سے پاکستان کی حالت خستہ ہو گئی تھی تو یہ جنگ بندی کیوں کی گئی؟ انھوں نے کہا کہ ’’وزیر داخلہ جی نے بتایا کہ پاکستان کے پاس پناہ میں آنے کے بجائے کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایسے میں سوال ہے کہ ’آپ نے پناہ دی کیوں؟‘ دہشت گرد ہمارے ملک میں آ کر لوگوں کو مار ڈالتے ہیں اور آپ انھیں پناہ دے رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’جیسے ہی پناہ دینے پر سوال اٹھا تو وزیر داخلہ ماضی میں چلے گئے۔ وہ نہرو جی، اندرا جی سے لے کر میری ماں کے آنسوؤں تک پہنچ گئے۔ لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ جنگ بندی کیوں ہوئی، جنگ کیوں رکی؟‘‘

اپنی ماں سونیا گاندھی کے آنسوؤں کا ذکر وزیر داخلہ کے ذریعہ کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے پرینکا نے کہا کہ ’’ایوان میں میری ماں کے آنسوؤں کی بات کی گئی، میں اس کا جواب دینا چاہتی ہوں۔ میری ماں کے آنسو تب گرے جب ان کے شوہر کو دہشت گردوں نے شہید کیا، جب وہ صرف 44 سال کی تھیں۔ آج میں اس ایوان میں کھڑی ہو کر ان 26 لوگوں کی بات اس لیے کر رہی ہوں، کیونکہ میں ان کا درد جانتی ہوں اور اسے محسوس کرتی ہوں۔‘‘ اپنی تقریر کے دوران وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’پہلگام کے بیسرن میں جن 26 افراد کی جان گئی، ان میں سے 25 ہندوستانی تھے، لیکن حکومت نے انھیں کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی۔‘‘ ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ ’’آپ چاہے جتنے بھی آپریشن کر لیں، اس حقیقت سے آپ چھپ نہیں سکتے کہ ان لوگوں کو آپ نے سیکورٹی نہیں دی۔ جب پاکستان کو اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا تو آپریشن سندور کو سب سے بڑا دھچکا لگا۔ یہ کس کی ناکامی ہے؟‘‘ پرینکا نے پہلگام حملہ میں ہلاک 25 ہندوستانیوں کے نام بھی ایک ایک کر پڑھے، لیکن اُس وقت برسراقتدار طبقہ نے ’ہندو-ہندو‘ کا نعرہ لگایا۔ ان نعروں کو درکنار کرتے ہوئے پرینکا نام پڑھتی گئیں اور انھیں ’ہندوستانی‘ بتاتی گئیں۔


0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...