جموں و کشمیر انتظامیہ نے اے جی نورانی اور ارندھتی رائے کی کتابوں سمیت 25 کتابوں پر پابندی لگائی

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 7, 2025358 Views


جموں و کشمیر انتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ‘علیحدگی پسندی کو فروغ دینے’ اور ‘ہندوستان کے خلاف تشدد بھڑکانے’ کے الزام میں 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں سرکردہ ہندوستانی مصنفین مثلاً اے جی نورانی، ارندھتی رائے اور انورادھا بھسین سمیت معروف مؤرخین نے لکھی ہیں۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ: ابھی شرما/سی سی بی وائی 2.0

سری نگر: جموں و کشمیر انتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ‘علیحدگی پسندی کو فروغ دینے’ اور ‘ہندوستان کے خلاف تشدد بھڑکانے’ کے الزام میں 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے بعض کتابیں سرکردہ ہندوستانی اور غیر ملکی مصنفین  سمیت معروف مؤرخین نے لکھی ہیں ۔

اس سلسلے میں منگل (5 اگست) کو جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کی طرف سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں جاری کیے گئے  ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ کتابیں جموں و کشمیر کے بارے میں ‘غلط بیانیہ’ پیش کرتی ہیں جو نوجوانوں کو ‘تشدد اور دہشت گردی’ کی طرف گمراہ کر رہی ہے۔

معلوم ہو کہ یہ آرڈر 2019 میں بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کو ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر کو ایک ریاست سے مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔

تازہ ترین فیصلے میں جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں سے کچھ پبلشنگ انڈسٹری کے بڑے ناموں جیسے پینگوئن، بلومسبری، ہارپر کولنز، پین میک ملن انڈیا، روٹلیج اور ورسو بکس نے شائع کی ہیں اور اب محکمہ داخلہ کے حکم کا مطلب ہے کہ یہ پبلشرز اب ان کتابوں کو تقسیم یا دوبارہ پرنٹ نہیں کر سکیں گے۔

ان کتابوں کی فہرست میں ہندوستانی آئینی ماہر اور دانشور اے جی نورانی کی بہت مشہور کتاب ‘دی کشمیر ڈسپیوٹ’، برطانوی مصنفہ اور مؤرخ وکٹوریہ شوفیلڈ کی ‘کشمیر ان کانفلیکٹ – انڈیا، پاکستان اینڈ دی ان اینڈنگ وار’، بکر پرائز یافتہ ارندھتی رائے کی ‘آزادی’ اور لندن کے سکول آف اکنامکس کے پروفیسر سمنتر بوس کی ‘کنٹسٹیڈ لینڈز’ شامل ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ محکمہ داخلہ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ان کتابوں کو انڈین سول ڈیفنس کوڈ 2023 کی دفعہ 98 کے مطابق ‘ضبط’ قرار دیا جانا چاہیے۔’ یہ دفعہ حکومت کو کتابیں یا دیگر دستاویز کو ضبط کرنے اور ایسے دستاویزوں کے لیے سرچ وارنٹ جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا الزام

آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ان کتابوں نے نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کی بڑائی بیان کرنے اور جموں و کشمیر پر ‘تاریخی یا سیاسی تبصرے’ کی شکل میں ہندوستانی ریاست کے خلاف تشدد کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

لیفٹیننٹ گورنر کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے، ’یہ لٹریچر شکایت، مظلومیت اور عسکریت پسندی کی بہادری کے کلچر کو فروغ دے کر نوجوانوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالے گا۔ ‘

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کتابوں نے تاریخی حقائق کو مسخ کرکے، دہشت گردوں کی بڑائی، سیکورٹی فورسز کی مذمت، مذہبی بنیاد پرستی، علیحدگی پسندی کو فروغ دینے، تشدد اور دہشت گردی کی راہ ہموار کرنے وغیرہ کے ذریعے ‘جموں و کشمیر میں نوجوانوں کی بنیاد پرستی میں تعاون کیا ہے’۔

محکمہ داخلہ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ کتابیں ‘علیحدگی پسندی کو فروغ دینے اور ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی پائی گئی ہیں اور اس لیے یہ بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 152، 196 اور 197 کی دفعات کے ماتحت ہیں۔’

واضح ہو کہ بی این ایس کی دفعہ 152 ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے’ سے متعلق جرائم سے متعلق ہے؛ بی این ایس کی دفعہ 196 مذہب، ذات وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے سے متعلق جرائم سے متعلق ہے، جبکہ بی این ایس کی دفعہ 197 ‘قومی یکجہتی کے لیے متعصبانہ الزامات اور دعوے’ سے متعلق ہے۔

انڈین کوڈ آف کریمنل پروسیجر، 2023 کی دفعہ 98 کے ذریعے عطا کردہ اختیارات کا استعمال

محکمہ داخلہ کے حکم کے مطابق، ‘اب بھارتیہ نیائے سنہتا، 2023 کی دفعہ 98 کے ذریعے عطا کردہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے، حکومت جموں و کشمیر 25 کتابوں کی اشاعت کو  لے کراعلان کرتی ہے…  جنہیں حکومت کی طرف سے ضبط کیا جاتا ہے ۔’

اس فہرست میں شامل دیگر اہم کتابوں میں آسٹریلوی ماہر تعلیم کرسٹوفر سنیڈن کی ‘ انڈیپنڈنٹ کشمیر’، صحافی اور ایڈیٹر انورادھا بھسین کی ‘اے ڈسمینٹل اسٹیٹ -دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیرآفٹرآرٹیکل 370 ‘، سیما قاضی کی لکھی ہوئی ‘بٹوین ڈیموکریسی اینڈ نیشن- جینڈر اینڈ ملٹرائزیشن ان کشمیر’، حفصہ کنجول کی’ کولونائزنگ کشمیر اور ڈیوڈ دیوداس کی لکھی ہوئی ‘ان سرچ آف اے فیوچر دی سٹوری آف کشمیر’سمیت  ایسی کئی کتابیں شامل ہیں، جنہوں نے وادی اور وہاں لوگوں کی کہانیاں دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔

اس سلسلے میں انورادھا بھسین، جن کی آرٹیکل 370 کی منسوخی پر لکھی کتاب کو محکمہ داخلہ نے نشانہ بنایا ہے، نے ‘دہشت گردی کی بڑائی بیان کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا،’یہ کتابیں اچھی طرح سے تحقیق شدہ ہیں اور ان میں سے ایک بھی دہشت گردی کی تعریف بیان نہیں کرتی، جسے یہ حکومت ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ آپ کو جھوٹ کو چیلنج کرنے والے الفاظ سے ڈر لگتا ہے!میں کتابوں پر پابندی عائد کرنے والوں (مسخ شدہ  ذہنیت کی مضحکہ خیز علامت) کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ  دہشت گردی کی تعریف کرنے والے ایک لفظ کو بھی ثابت کریں۔ جو لوگ سچائی کو اہمیت دیتے ہیں انہیں اسے پڑھنا چاہیے اور خود فیصلہ کرنا چاہیے۔’

جمہوریت میں ہر آواز کو جگہ دی جانی چاہیے

محکمہ داخلہ کے تازہ حکم نامے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئےآل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’دانشوروں اور نامور مؤرخین کی کتابوں پر پابندی لگانے سے تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کے زندہ یادوں کا ذخیرہ  مٹ نہیں جائے گا، یہ صرف اس طرح کے آمرانہ اقدامات کے پیچھے چھپےلوگوں کے عدم تحفظ اور محدود سمجھ کو بے نقاب کرتا ہے،  اور اپنی ادبی وابستگی کو ظاہر کرنے کے لیے چل رہے کتاب میلے کے فخریہ  انعقاد میں تضاد کو بھی اجاگر کرتا ہے!’

وہیں، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیامنٹ منوج کمار جھا نے لکھا کہ اس طرح کا عمل خیالات، بحث اور اختلاف کے تئیں بنیادی خوف کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کتابوں پر پابندی کسی بھی جمہوریت میں انتہائی  رجعت پسندانہ قدم ہے۔ یہ خیالات، بحث اور اختلاف کے تئیں بنیادی خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ جمہوریت خیالات کے آزادانہ تبادلے پر پروان چڑھتی ہے، یہاں تک کہ  ان خیالات پر بھی جو ‘سرکاری سچائی’ سے متفق نہ ہوں  یا اس کی تنقید کرتے ہیں۔ جس لمحے ہم کسی کتاب پر پابندی لگاتے ہیں، وہ اس کی طاقت کا نہیں بلکہ عدم تحفظ کی نشاندہی کرتی ہے۔’

منوج کمار جھا نے مزید کہا کہ یہ بات چیت کے ذریعے مخالف خیالات سے منسلک ہونے میں حکومت کی نااہلی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ سنسر شپ، خاص طور پر ادب پر، تخیل، فکری آزادی اور لوگوں کے آزادانہ رائے قائم کرنے کے حق کو سلب کرتی ہے۔ ایک باشعور شہری کی پرورش کے بجائے، یہ معاشرے کو جہالت اور مطابقت کی طرف دھکیلتا ہے۔ ایک خود اعتماد جمہوریت کو ہر آواز کے لیے جگہ بنانی چاہیے – یہاں تک کہ ان کے لیے بھی جن سے یہ اختلاف کرتی ہے۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...