نئی دہلی: پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی دعوت پر بدھ کی شام دہلی کے شنگری لا ہوٹل میں مختلف سیاسی پارٹیوں بالخصوص کانگریس، سماجوادی پارٹی، ٹی ایم سی، بیجو جنتا دل، ڈی ایم کے، آل انڈیا مسلم لیگ وغیرہ کے سرکردہ ممبران پارلیمنٹ جمع ہوئے۔
تقریب میں ملک کے اندر جاری اقلیت مخالف رویوں، آسام میں بنگلہ زبان بولنے والوں پر سرکاری ظلم وستم، فلسطین پر حکومتی موقف، نفرت انگیز واقعات ، بہار میں جاری ایس آئی آر اور ذات کی بنیاد پر مردم شماری جیسے حساس موضوعات پر ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ تقریب کے آغاز میں جمعیۃ علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے ممبران پارلیمنٹ کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر اپنے کلیدی خطاب میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی نے دو اہم نکات پر زور دیا اور کہا کہ پہلی بات یہ کہ ہماری حکومت نے فلسطین واسرائیل کے تعلق سے جو پالیسی اپنائی ہے، وہ بھارت کے تاریخی موقف اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔ اس سے ہمارے ملک کی عالمی شناخت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ موجودہ پالیسی نے ہمیں ایسے گروہوں کے ساتھ لاکھڑا کیا ہے جو انسانی حقوق کی پامالی کر رہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ فلسطین کا قضیہ اب صرف فلسطین کے حامی ہونے یا نہ ہونے کا نہیں رہا، بلکہ یہ ایک پرو انسانیت (Pro-Humanity) مسئلہ بن چکا ہے۔ آج وہاں انسانیت لہولہان ہے، لیکن ہم انسانیت کی بنیاد پر بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونے سے پہلو تہی کر رہے ہیں جو شرمناک ہے۔


مولانا مدنی نے آسام کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آسام میں جس طرح لوگوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، وہ ایک منظم اور منصوبہ بند عمل ہے۔ اگر کسی جگہ ترقی کے نام پر ضابطے کے تحت کوئی نقل مکانی ہو تو بھی وہ قابلِ اعتراض ہے، لیکن یہاں تو قانون کو توڑ کر خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو کسی بھی صورت میں ملک کے لیے اچھا نہیں ہو سکتا۔مولانا مدنی نے تجویز پیش کی کہ تمام پارٹیوں پر مشتمل ایک آل پارٹی وفد آسام کا دورہ کرے، ورنہ ہم خیال جماعتیں مل کر اپنے ممبران پارلیمنٹ کو وہاں بھیجیں تاکہ وہ حقائق کو خود دیکھ سکیں اور ملک و دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔
ممبران پارلیمنٹ نے مولانا مدنی کے خیالات سے اتفاق کیا اور کہا کہ آسام کے قضیے پر وہ جلد ایک سیکولر وفد لے کر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنمااور ملاپورم سے ممبر پارلیمنٹ ای ٹی بشیر نے کہا کہ سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور ممبران پارلیمنٹ کا ایک وفد آسام جائے، اس کے زیادہ مؤثر اثرات مرتب ہوں گے۔ ای ٹی بشیر نے مزید کہا کہ ملک میں فرقہ پرست عناصر ہندو راشٹر کے قیام کے درپے ہیں۔ اس لیے ہم خیال جماعتوں کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔
اس موقع پر کئی ممبران پارلیمنٹ نے اپنے اپنے تاثرات بھی پیش کیے۔ پرتاپ گڑھ سے سماج وادی ایم پی شیوپال سنگھ پٹیل نے کہا کہ ظلم صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ تمام کمزور طبقات پر ہو رہا ہے، ہمیں متحدہو کر فرقہ پرستی کے زہر سے سماج کو بچانا ہوگا۔ مظفر نگر لوک سبھا سے سماجوادی رکن پارلیمنٹ ہریندر ملک نے کہا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ گولوالکر کے نظریے کے مطابق ہے، جس میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی ہے اور ہمیں اس جدوجہد کو مزید وسعت دینی ہوگی۔
ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ ندیم الحق نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں بنگالی مسلمانوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ قابلِ مذمت عمل ہے۔ممبر پارلیمنٹ عبدالصمد صمدانی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی قربانیاں اور فکر ملک کے لیے اہم سرمایہ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ جمعیۃ کی قیادت ملک کی سمت درست رکھنے میں رہنمائی کرتی رہے گی۔سماج وادی پارٹی سے ممبر پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق نے زور دیا کہ نفرت کے خلاف ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے، ہمیں اس کے خلاف عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا ہوگا۔ انھوں نے نفرت اور فرقہ پرستی کے خلاف جمعیۃ کی قربانیوں کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ سنبھل میں جب لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں تو جمعیۃ علماء ہند نے مظلوموں کی اشک شوئی کی، ہم سنبھل کی طرف سے اہل جمعیۃ کے شکر گزار ہیں۔


مولانا محب اللہ ندوی نے آسام میں بنگلہ اسپیکنگ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح فلسطین کے عوام کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، اسی طرح آسام میں بھی بنگلہ اسپیکنگ نوجوانوں اور خاندانوں کو ماورائے قانون اٹھایا جا رہا ہے، اور شادی ہالوں یا ریزورٹس میں رکھ کر پولیس ان پر تشدد کر رہی ہے۔ انھوں نے فلسطین کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض ایک خارجی معاملہ نہیں بلکہ ہمارے ملک کی شبیہ اور وقار کا مسئلہ ہے۔ جمعیۃ علماء ہند ایک انقلابی تحریک رہی ہے جس کے اکابرین نے آزادی کے لیے قربانیاں دیں لیکن کبھی اس کا صلہ نہیں مانگا۔ آج بھی اگر کسی تنظیم کو ملک و ملت کے حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہے تو وہ جمعیۃ ہے، اور ہم ان شاء اللہ ہر انصاف پسند تحریک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوں گے۔
آزاد سماج پارٹی سے رکن پارلیمنٹ چندر شیکھر آزاد نے کہا کہ آج ملک میں نظریاتی جنگ ہے۔ حکومت میں موجود طاقتیں ہندوتو کا ایجنڈہ نافذ کر رہی ہیں۔ ہمیں ریت میں منہ ڈال کر شترمرغ کی طرح نہیں رہنا چاہیے بلکہ حق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔کشن گنج سے ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید نے کہا کہ آسام کے مسئلے میں صرف مسلمان جائیں، یہ بہتر نہیں ہوگا۔ اسی طرح بنگالیوں کو ملک بھر میں پریشان کیا جا رہا ہے۔ گرچہ اس ملک میں ہندو مسلم سیاست ہو رہی ہے، لیکن نقصان دلتوں اور او بی سی کو بھی ہو رہا ہے۔ ہمیں ان پریشان حال طبقات کو بھی انصاف کی لڑائی میں شامل کرنا ہوگا۔
مغربی بنگال سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عیسیٰ خاں چودھری نے کہا کہ ملک بھر میں بنگلہ بولنے والے بہت سارے بنگالیوں کو ستایا جا رہا ہے، ایسی متعدد شکایتیں آ رہی ہیں۔ یہ سب بی جے پی اور اس کے ہمنواؤں کے ذریعہ انجام دیا جا رہا ہے، جبکہ ملک کا قانون ہے کہ ہر شخص ملک کے کسی بھی حصے میں رہ سکتا ہے۔ جب یہ قانون ہے تو پھر کس بنیاد پر یہ سب کیا جا رہا ہے۔
اڈیشہ سے راجیہ سبھا ایم پی مجیب اللہ خاں نے بتایا کہ گناہوں کا گھڑا لگاتار بھر رہا ہے۔ ہمارے صوبے میں پہلے امن و امان کی صورتحال نسبتاً بہتر تھی، لیکن جب سے بی جے پی کی حکومت بنی ہے، حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ چند روز قبل ایک نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس میں ایک مسلم لڑکی کو کراسن تیل ڈال کر جلانے کی کوشش کی گئی۔ وہ اب بھی ایمس میں زیرِ علاج ہے اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ نیشنل کانفرنس سے ایم پی میاں الطاف لاروی نے کہا کہ فلسطین ہو یا آسام، ملک کو ان پالیسیوں سے شدید نقصان ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے۔
لکشدیپ سے ایم پی محمد حمداللہ سعید نے کہا کہ لکشدیپ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، عربی کو نصاب سے نکالنے اور مدارس کو بند کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ حالانکہ ہم سب کی کوشش سے اس پر اسٹے لگ گیا ہے، لیکن یہ لڑائی طویل ہے۔ ہمیں اس ملک میں سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حفاظت کرنی ہے، اس لیے ہمیں متحد ہو کر اس فرقہ پرستی کے خلاف لڑنا ہوگا۔راجیہ سبھا ایم پی حارث بیرن نے کہا کہ عدلیہ ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ہمیں اپنے معاملات عدالتوں میں پوری تیاری سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ممبر پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے جمعیۃ علماء ہند کی پیش کردہ رپورٹ کی مکمل تائید کی۔
اس موقع پر سہارن پور سے ایم پی عمران مسعود، کیرانہ سے ایم پی اقرا حسن چودھری، ابو طاہر خاں، آغا سید روح اللہ مہدی، ڈی ایم کے ایم پی محمد عبداللہ، عبدالوہاب ، راجیہ سبھا ایم پی جے بی ماتھر، شری جی کمار نائیک بھی شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں مولانا شبیر احمد ندوی سمیت دفتر جمعیۃ علماء ہند کے کئی اہم ذمہ داران کی بھی شرکت دیکھنے کو ملی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔