نئی دہلی: صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر میں تعلیمی سال 26-2025 کے لیے باضابطہ طور پر تعلیمی وظائف کا اعلان کیا۔ واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند اور ایم ایچ اے مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ، دیوبند 2012 سے میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے غریب طلبہ کو اسکالرشپ فراہم کر رہی ہے۔ اسی اسکیم کے تحت ہر سال انجینئرنگ، میڈیکل، ایجوکیشنل، جرنلزم سے متعلق یا کسی بھی ٹیکنیکل، پروفیشنل کورس میں زیر تعلیم مالی طور پر کمزور ایسے طلبہ کو اسکالرشپ دی جاتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال کے امتحان میں کم از کم 75 فیصد نمبر حاصل کیے ہوں۔ رواں سال 26-2025 کے لیے اسکالرشپ فارم جمع کرنے کی آخری تاریخ 15 جنوری 2026 ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران مختلف کورسز میں منتخب ہونے والے 915 طلبہ کو اسکالرشپ دی گئی تھی، جن میں 46 ہندو طلبہ بھی شامل تھے۔ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند مذہب کی بنیاد پر کوئی کام نہیں کرتی۔ اہم بات یہ ہے کہ طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اسکالرشپ کی رقم گزشتہ سال سے دو کروڑ کر دی گئی تھی۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ان وظائف کا اعلان کرتے ہوئے ہمیں انتہائی مسرت کا احساس ہو رہا ہے کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حد تک سنور سکتا ہے جنہیں مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی جنگ اب شروع ہوئی ہے، اس کا مقابلہ کسی ہتھیار یا ٹکنالوجی سے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس جنگ میں سرخروئی حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کر کے اس لائق بنا دیں کہ وہ اپنے علم کے ہتھیار سے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کو شکست دے کر کامیابی اور کامرانی کی وہ منزلیں سر کر لیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طور پر محدود اور مشکل تر بنا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر آج کی دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں بچوں کو مذہبی اور اخلاقی تعلیم بھی دینی چاہیے تاکہ وہ آگے چل کر اپنی عملی زندگی میں ایک کامیاب انسان ہی نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بھی بن سکیں۔ ہمیں ایسے اسکولوں اور کالجوں کی اشد ضرورت ہے جن میں دینی ماحول میں ہمارے بچے اعلیٰ دنیاوی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیاز کے بغیر حاصل کر سکیں۔
انہوں نے قوم کے بااثر افراد سے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ ایسے اسکول اور کالج بنائیں جہاں بچے دینی ماحول میں آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس طرح کے تعلیمی اداروں کو ایک مثالی ادارہ بنانے کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ ان میں غیر مسلم والدین بھی اپنے بچوں اور بچیوں کو پڑھانے کو ترجیح دیں۔ اس سے نہ صرف باہمی میل جول اور بھائی چارے میں اضافہ ہوگا بلکہ ان غلط فہمیوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست عناصر کی طرف سے منصوبہ بند طریقے سے پھیلائی جا رہی ہیں۔
ارتداد کے فتنہ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اسے منصوبہ بند طریقے سے شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت ہماری بچیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر اس فتنہ کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر تدبیر نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال دھماکہ خیز ہو سکتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس فتنہ کو مخلوط تعلیم کی وجہ سے تقویت مل رہی ہے اور ہم نے اسی لیے اس کی مخالفت کی تھی، اور تب میڈیا نے ہماری اس بات کو منفی انداز میں پیش کرتے ہوئے یہ تشہیر کی تھی کہ مولانا مدنی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، جبکہ ہم مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں، لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد ہم بحیثیت قوم تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک طرف طرح طرح کے مسائل میں الجھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ہم پر اقتصادی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی ترقی کی راہیں بند کی جا رہی ہیں۔ اس خاموش سازش کو اگر ہمیں ناکام کرنا ہے اور سربلندی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیمی ادارے خود قائم کرنے ہوں گے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں ترقی کی کنجی تعلیم رہی ہے، اس لیے ہمیں اپنے بچوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگا بلکہ ان کے اندر سے احساسِ کمتری کو نکال کر انہیں مسابقتی امتحانات کے لیے تحریک دینی ہوگی، اور ہم اسی صورت اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں جس طرح مفتی، علما اور حفاظ کی ضرورت ہے، اسی طرح پروفیسر، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لیے اس وقت انتہائی اہم ہے، اس جانب مسلمان، خاص طور پر شمالی ہندوستان کے مسلمان، توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے۔ یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہی حالات کے پیش نظر ہم نے دیوبند میں اعلیٰ عصری تعلیم گاہیں جیسے لاء کالج، بی ایڈ کالج، ڈگری کالج، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اسکول اور مختلف صوبوں میں آئی ٹی آئی قائم کیے ہیں، جن کا ابتدائی فائدہ بھی اب سامنے آنے لگا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کر رہی ہے۔ چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتب و مدارس قائم کر رہی ہے، وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زور دینا شروع کر دیا ہے جو روزگار فراہم کرتی ہے۔ روزگار فراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اور مسابقتی تعلیم ہے تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کر کے باہر نکلیں، انہیں فوراً روزگار اور ملازمت مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ اسی مقصد کے تحت جمعیۃ علماء ہند ضرورت مند طلبہ کو کئی برس سے تعلیمی وظائف دینے کا اہتمام کر رہی ہے تاکہ وسائل کی کمی یا غربت کی وجہ سے ذہین اور ہونہار بچے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے بچوں میں ذہانت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ حال ہی میں آنے والی کچھ سروے رپورٹوں میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلم بچوں میں نہ صرف تعلیمی تناسب میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان میں پہلے کے مقابلے میں تعلیمی رجحان میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لیے ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر ہم انہیں متحرک کریں اور حوصلہ دیں تو راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کر کے کامیابی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔ فارم ویب سائٹ www.jamiatulamaihind.org سے ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

































