فائل فوٹو: لوک سبھا میں وزیر داخلہ امت شاہ۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/سنسد ٹی وی)
نئی دہلی: دی وائر کو موصولہ معلومات کے مطابق، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منگل (19 اگست) کی شام لوک سبھا کے سکریٹری جنرل کو ایک خط لکھا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ پارلیامنٹ کے جاری مانسون سیشن میں بدھ (20 اگست 2025) کو 130واں آئینی ترمیمی بل-2025، یونین ٹیریٹریز (ترمیمی) بل -2025 اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو (ترمیمی) بل -2025 پیش کرنے والے ہیں۔
ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ یا کوئی بھی وزیر مملکت 30 دن تک حراست میں رہتا ہے (چاہے اس کو قصوروار نہ ٹھہرایا گیا ہو) تو گورنر یا مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیفٹیننٹ گورنر اسے برخاست کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کا اطلاق وزیراعظم پر بھی ہوگا۔ یعنی صدر کے پاس وزیراعظم کو برخاست کرنے کا اختیار ہوگا۔ تاہم اس بات کا امکان صفر ہے کہ مرکزی حکومت کی کوئی بھی تفتیشی ایجنسی ان ایجنسیوں کو کنٹرول کرنے والے شخص (یعنی وزیر اعظم) کو گرفتار کرے اور پھر اسے 30 دن کے لیے جیل میں رکھے ۔
اس نئے قانون کو نافذ کرنے کے لیے شاہ 130 واں آئینی ترمیمی بل پیش کریں گے۔ اس بل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 75 (‘وزیروں سے متعلق دیگر دفعات’) میں درج ذیل دفعات کو شامل کرنے کی تجویز ہے؛
‘اگر کوئی وزیر ، کسی عہدے پر رہتے ہوئے مسلسل تیس دنوں تک، کسی جرم کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد حراست میں رکھا جاتا ہے- اور وہ جرم موجودہ وقت میں کسی بھی قانون کے تحت آتاہے، جس کی سزا پانچ سال یا اس سے زیادہ کی قید کی سزا ہو، تو صدر اسے وزیر اعظم کے مشورے سے عہدے سے ہٹا دیں گے، جو اس وزیر کو حراست میں لینے کے 31ویں دن تک دیا جانا ہوگا۔’
‘اگر وزیراعظم 31 ویں دن تک صدر کو ایسے وزیر کو ہٹانے کا مشورہ نہیں دیتے ہیں تو اس کے بعد والے دن سے وہ وزیر اپنے عہدہ پر نہیں رہےگا۔’
‘ایک شق یہ بھی ہو گی کہ اگر وزیر اعظم، اپنے دور میں مسلسل تیس دن تک کسی ایسے جرم کے الزام میں، جو کسی قانون کے تحت قابل سزا ہے اورجس کی سزا پانچ سال یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے، گرفتار کیے جانے کے بعد حراست میں رکھا جاتا ہے تو اسے 31ویں دن تک استعفیٰ دینا ہو گا۔ اگر وہ مستعفی نہیں ہوتے تو اگلے دن سے وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر نہیں رہیں گے۔’
نئے قانون کے حوالے سے بل میں کہا گیا ہے کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو بھی عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے اگر وہ 30 دن یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے حراست میں یا گرفتار رہے، چاہے اس کا جرم ثابت نہ ہوا ہو۔
یہ نیا قاعدہ حکومت کی یونین ٹیریٹریز ایکٹ 1963 کی دفعہ 45، ذیلی دفعہ (5) میں ترمیم کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی، جموں و کشمیر کی تنظیم نو (ترمیمی) بل میں بھی ایسی ہی ایک شق شامل کی گئی ہے – ریاست کی بحالی کے بارے میں قیاس آرائیوں کے برعکس۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر جموں و کشمیر کے کسی وزیر کو مسلسل 30 دن تک گرفتار یا حراست میں رکھا جاتا ہے اور اس پر پانچ سال یا اس سے زیادہ کی سزا کے جرم کا الزام ہے تو اسے اب لیفٹیننٹ گورنر یا وزیر اعلیٰ کے مشورے پر ہٹایا جاسکے گا۔
جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل میں لکھا ہے؛
‘اگر کسی وزیر کو عہدے پر رہتے ہوئے، کسی ایسے جرم کے الزام میں لگاتار تیس دنوں تک حراست میں لیا جاتا ہے جس کی سزا اس وقت کے لیے نافذ العمل کسی قانون کے تحت قابل سزا ہو، اورجس کی سزا پانچ سال یا اس سے زیادہ ہو، تو اسے اس کو حراست میں لیے جانے کے بعد 31 ویں دن کے اندر اندر لیفٹیننٹ گورنر کے مشورے پر عہدے سے ہٹا دیا جائے گا’۔
اگر یہ ترمیمی بل منظور ہو جاتا ہے تو یہ مرکزی حکومت کو کسی وزیر اعلیٰ یا اس کی کابینہ کے کسی رکن کو ہٹانے کے اضافی اختیارات دے گا۔ یہ مرکزی حکومت کے عدالت سے کیے گئے وعدے کے بالکل خلاف ہے کہ جموں و کشمیر کو جلد ہی مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔
نیا ترمیمی بل اس کے بجائے مرکزی حکومت کو پہلے سے زیادہ انتظامی اختیارات دینے کا کام کرتا ہے اور جموں و کشمیر کی منتخب حکومت پر مرکز کی حکمرانی کو مضبوط کرتا ہے۔
اس اقدام پر ابتدائی ردعمل میں کانگریس کے سینئر لیڈروں نے شاہ کی تجاویز پر تنقید کی ہے اور اسے اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کو کمزور کرنے کی چال قرار دیا ہے۔
کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی نے ایکس پر پوسٹ کیا؛
‘یہ کتنی خطرناک صورتحال ہے! گرفتاری کے لیے کوئی رہنما خطوط نہیں! اپوزیشن رہنماؤں کی اندھا دھند اور بے حساب گرفتاریاں! نئے مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ وغیرہ کو صرف گرفتاری پر فوری طور پر ہٹا دیا جائے۔’
انہوں نے مزید لکھا؛
‘اپوزیشن کو غیر مستحکم کرنے کا سب سے آسان طریقہ -اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کرنے کے لیے متعصب مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کرنا ہے۔ انہیں من مانی طور پر گرفتار اور ہٹایا جا سکتا ہے چاہے وہ انہیں انتخابات میں شکست نہ دے سکیں!! اور حکمران جماعت کے کسی وزیر اعلیٰ کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا جائے گا!!’
دی وائر کو یہ بھی جانکاری ملی ہے کہ شاہ نے یہ خط پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو، وزارت قانون و انصاف کے قانون ساز محکمہ، لوک سبھا سکریٹریٹ اور لوک سبھا کے قانون ساز دفتر کو بھی بھیجا ہے۔
ایک الگ خط میں شاہ نے لوک سبھا کے سکریٹری جنرل سے درخواست کی ہے کہ وہ ایوان کے قواعد میں نرمی کریں تاکہ انہیں موجودہ سیشن میں دونوں ترمیمی بلوں کو پیش کرنے کی اجازت دی جا سکے۔
بتایا جا رہا ہے کہ شاہ نے ‘وقت کی کمی’ کا حوالہ دیتے ہوئے سکریٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ لوک سبھا کے رول 19 (اے) اور 19 (بی) کے طریقہ کار اور قواعد کو آسان بنائیں تاکہ اس تجویز کو موجودہ اجلاس میں رکھا جا سکے، جو 21 اگست 2025 کو ختم ہو رہا ہے۔
رول 19(اے) کہتا ہے کہ کسی بھی وزیر کو لوک سبھا میں بل پیش کرنے سے پہلے نوٹس دینا ہوگا۔ رول 19(بی) کہتا ہے کہ کسی بھی بل کو باضابطہ طور پر متعارف کرانے سے پہلے لوک سبھا کے تمام ممبران کے درمیان تقسیم کیا جانا چاہیے تاکہ وہ متعلقہ بل کا جائزہ لے سکیں اور تیاری کر سکیں۔
منگل کی دیر رات حکومت نے لوک سبھا کے سکریٹری جنرل کو شاہ کی تجاویز کے بارے میں دی وائر کی پہلی رپورٹ کی تصدیق کر دی۔ پارلیامانی امور کی وزارت نے لوک سبھا سکریٹریٹ کو ایک نظرثانی شدہ سرکاری ایجنڈا بھیجا اور درخواست کی کہ اس ایجنڈے کو اس میں شامل کیا جائے۔ وزارت نے یہ بھی کہا کہ اگر بات چیت 21 اگست 2025 تک جاری رہتی ہے تو اس دن بھی ان بلوں پر بحث ہو سکتی ہے۔
دی وائر کو موصولہ معلومات کے مطابق، جب شاہ نے لوک سبھا کے سکریٹری جنرل کو اچانک ایک خط بھیجا جس میں سیشن کے آخری دو دن باقی رہ جانے کے باوجود ان بلوں کو پیش کرنے کی تجویز پیش کی گئی، تو لوک سبھا سکریٹریٹ نے اعتراض کیا کہ یہ رول 19اے اور 19بی کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے سکریٹریٹ سے شاہ کی اس فوری درخواست کو پورا کرنے کے لیے کوئی حل تلاش کرنے کو کہا ہے۔
اس کے بعد شاہ کو کہا گیا کہ وہ لوک سبھا کے سکریٹری جنرل اتپل کمار سنگھ کو ایک اور خط لکھیں اور ان سے رول 19اے اور 19بی میں نرمی کرنے کی درخواست کریں۔ توقع ہے کہ جب شاہ ان بلوں کو متعارف کرائیں گے تو وہ انہیں سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی تجویز بھی دے سکتے ہیں، کیونکہ ایسے اہم بل اپوزیشن لیڈروں کو ان کا جائزہ لینے کے لیے کافی وقت دیے بغیر پیش کیے جا رہے ہیں۔
(انگریزی میں یہ رپورٹ سب سے پہلے 19 اگست کو شام 7:42 پر شائع ہوئی تھی اور حکومت کی جانب سے شاہ کی تجاویز کی تصدیق کے بعد اسے اپڈیٹ کیا گیا ہے۔)