جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طالبعلموں پر کارروائی، جھڑپ اور کیمپس بین کے واقعات میں اضافہ: رپورٹ

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 2, 2025363 Views


جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ دو سالوں میں معطلی اور کیمپس بین سمیت حکام کی جانب سے کارروائی کا سامنا کرنے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں طلبہ کے درمیان جھڑپ میں بھی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا۔

چاراپریل 2025 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں وقف (ترمیمی) بل کے خلاف طلبہ کا احتجاج اور سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ حکام کی جانب سے معطلی اور کیمپس بین سمیت دیگر کارروائی کا سامنا کرنے والے کے طلبہ کی تعداد میں  گزشتہ دو سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ جانکاری ٹائمز آف انڈیا کوآر ٹی آئی کے تحت حاصل ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارروائی کا سامنا کرنے والے طلبہ کی تعداد 2019 کے 17 سے بڑھ کر 2022 میں 47، 2023 میں 105 اور 2024 میں 74 ہوگئی ہے – چار سالوں میں 243 طالبعلم۔

آر ٹی آئی کے مطابق، اس عرصے میں طلبہ کے درمیان جھڑپوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ 2023 اور 2024 میں ایسے 42 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

تاہم، 2020 اور 2021 میں یونیورسٹی میں کوئی جھڑپ نہیں ہوئی، جب کووڈ 19 لاک ڈاؤن نافذ تھا۔

معلوم ہو کہ 2019 کے آخر میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ جب طلبہ امن و امان کے ساتھ تھے، دہلی پولیس نے 15 دسمبر 2019 کو ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے کیمپس میں داخل ہونے کے بعد پڑھائی کر رہے طلبہ پر حملہ کیا، لائبریری میں آنسو گیس کے گولے داغے اور غیر معمولی افراتفری پیدا کی۔ اس کارروائی میں سو سے زائد طلبہ  زخمی ہوئے۔

ان برسوں کے دوران جامعہ ایک اقلیتی ادارے کے طور پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مسلم مخالف پالیسیوں کا گواہ رہا ہے ۔

دی وائر نے اس وقت بتایا تھا کہ اس سال 13 فروری کی صبح یونیورسٹی کے اندر احتجاج کرنے والے 14 طالبعلموں کو نیند سے جگایا گیا اور انہیں ادارے کے سیکورٹی گارڈز نے زبردستی اٹھا کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ یہ طلبہ چار طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائی کو رد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھرنے پر بیٹھے تھے، جنہیں ایک یادگاری پروگرام منعقد کرنے پر سسپنڈ کیا گیا تھا۔

اس سال کے شروع میں دہلی ہائی کورٹ نے معطلی کے اس آرڈر پر عارضی طور پر روک لگا دی تھی ۔ جسٹس دنیش کمار شرما نے پرامن مظاہروں پر یونیورسٹی کے ردعمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ‘ تشویشناک’ قرار دیا تھا۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 29 نومبر کو جاری ایک میمورنڈم میں کہا گیا تھا کہ ‘یونیورسٹی کیمپس کے کسی بھی حصے میں آئینی طور پر معزز کسی بھی  شخصیت کے خلاف احتجاج، دھرنا یا نعرے بازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔’ اس کے ساتھ ساتھ کیمپس میں گرافٹی اور پوسٹر لگانے پر 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ ہے۔

تعزیری کارروائی

اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ طلباء کے خلاف تعزیری کارروائی میں انتباہات اور شوکاز نوٹس سے لے کر کیمپس میں معطلی اور پابندی تک شامل ہیں۔

اس کے مطابق، ‘2023 میں جامعہ نے 71 وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیے تھے۔ 21 طلباء کو اچھے اخلاق کے بانڈ پر دستخط کرنے کوکہا گیا اور تین کو کیمپس میں بین کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح 2024 میں 56 طلبا کو شو کاز نوٹس جاری کیے گئے، آٹھ کو اچھے اخلاق کے بانڈ پر رکھاگیا، چار کو معطل اور ایک کو کیمپس سے بین کر دیا گیا تھا۔’

اس کے علاوہ چھ سال کی مدت میں تنازعات کے سلسلے میں پانچ ایف آئی آر درج کی گئیں، ایک 2019 میں اور چار 2024 میں۔

اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ایف آئی آر’ چوٹ پہنچانے’ سے متعلق دفعات کے تحت درج کی گئی ہیں۔

تاہم، یونیورسٹی نے آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1) (ایچ)کا حوالہ دیتے ہوئے مخصوص دفعات کو ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، جو ان تفصیلات سے مستثنیٰ ہے جو تحقیقات میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2019 اور 2024 کے درمیان جامعہ نے کل 27000 روپے کا جرمانہ وصول کیا۔ اس میں 2019 میں 7000 روپے، 2022 میں 4000 روپے، 2023 میں 12500 روپے اور 2024 میں 3500 روپے شامل ہیں۔ کووڈ 19 سال 2020 یا 2021 میں کوئی جرمانہ نہیں لیا گیا۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...