جابر ہندو رکشک دکھائے گئے گوتم پاٹھا کے پوتے نے وویک اگنی ہوتری کو لیگل نوٹس بھیجا

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 18, 2025370 Views


وویک اگنی ہوتری کی فلم ’دی بنگال فائلز‘ میں گوپال مکھرجی عرف ’گوپال پاٹھا‘ کے کردار کے حوالے سے پاٹھا کے پوتے شانتنو مکھرجی نے ہدایت کار کو لیگل نوٹس بھیجا ہے۔ خاندان کا الزام ہے کہ فلم میں ان کے دادا کومسلم مخالف قصائی کے طور پر دکھا کر بدنام کیا گیا ہے اور تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

فلم میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے (اگست 1946) کے دوران ہندو محلوں کے محافظ کے طور پر دکھائے گئے گوپال مکھرجی عرف ‘گوپال پاٹھا’ کے پوتے شانتنو مکھرجی نےلیگل نوٹس میں لکھا ہے کہ ‘وویک اگنی ہوتری کی گھنونی حرکتیں جان بوجھ کر، غیر ضروری طور پر میرے دادا جی کی توہین کر رہی ہیں۔ انہیں ایک فرقہ پرست غنڈے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔’تصویر بہ شکریہ: ایکس / وویک اگنی ہوتری

نئی دہلی: وویک اگنی ہوتری کی فلم ‘دی بنگال فائلز’ کو شدید مخالفت کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔ عالم یہ ہے کہ اگنی ہوتری نے جس تاریخی کردار کو اپنی فلم میں ‘ہیرو’ کے طور پر پیش کیا ہے، ان کے خاندان  نے  ہی فلم کے ڈائریکٹر کو لیگل نوٹس بھیج دیا ہے۔

فلم میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے (اگست 1946) کے دوران ہندو محلوں کے مرکزی محافظ کے طور پر دکھائے گئے گوپال مکھرجی عرف ‘گوپال پاٹھا’ کے پوتے شانتنو مکھرجی نے اگنی ہوتری کو لیگل نوٹس بھیجا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق، شانتنو کا کہنا ہے کہ ‘فلم میں ان کے دادا کو غیر انسانی انداز میں پیش کیا گیا ہے اور انہیں ولن کی طرح دکھایا گیا ہے۔ یہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ایک اہم کردار کی توہین ہے۔’

اس فلم کا ٹریلر سنیچر کو آئی ٹی سی رائل بنگال میں لانچ کیا گیا۔ اس کے بعد اگنی ہوتری اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے درمیان زبانی جنگ چھڑ گئی۔ اگنی ہوتری نے بنگال حکومت پر ‘انتشار اور آمریت’ کا الزام لگایا۔ وہیں ٹی ایم سی نے کہا کہ ‘یہ فلم انتخابات کے لیے سیاسی منصوبہ بندی کے ایک حصے کے طور پر تیار کی گئی ہے۔’

گوپال پاٹھا کے خاندان کو کیا اعتراض ہے؟

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، گوپال پاٹھا کا خاندان سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتا لیکن وہ اپنے اجداد کے بارے میں بہت واضح رائے رکھتے ہیں۔ شانتنو مکھرجی نے 14 جولائی کو فلم کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی، اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ فلم نہ صرف گوپال کے ‘قول وفعل’ کو بدنام کرتی ہے بلکہ ان کی نظریاتی وابستگی اور تاریخی جدوجہد کو بھی بدنام کیا جا رہاہے۔

شانتنو نے کہا، ‘فلم سے متعلق انٹرویو  سننے اور پری-ویو پڑھنے کے بعد مجھے شک تھا کہ میرے دادا کو کس طرح پیش کیا جائے گا۔ ٹریلر نے میرے شکوک کو درست ثابت کر دیا ہے۔’

خاندان کی طرف سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ فلم میں کولکاتہ کے اس قدآور رہنما کو’شرپسند رہنما اور مسلم مخالف قصائی’ کی طرح دکھایا گیا ہے۔

شانتنو نے کہا ہے کہ ‘دادا  جی نے 1946 کے فسادات کے دوران ہمارے علاقے میں مسلم خاندانوں کی بھی حفاظت کی تھی۔’

سامنے والے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی بہن نہاریکا نے مزید کہا؛

انہوں نے اس مسلمان خاندان کو ہماری چھت پر پناہ دی تھی۔ دادا جی  نے ایک رکشہ والے کے خاندان کو بھی بچایا تھا… ہم انہیں رفیق چاچا کہتے تھے۔ آج بھی اسلامیہ دوادُکان یا ملک بازار کی حاجی گوشت کی دکان کے مالکان ہمارے خاندان کا احترام کرتے ہیں۔

اس سال 16 اگست کو مالنگا لین میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کو 80 سال مکمل ہو ئے ہیں۔

شانتنو نے بتایا کہ 1946 کے فسادات سے پہلے مسلم لیگ کے رضاکار کولکاتہ کے مختلف حصوں میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ 16 اگست کو شہید مینار پر جلسہ عام میں اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کی آزادی سے پہلے لیگ کو پاکستان ملنا چاہیے۔ اس کے بعد ایسپلانیڈ (وسطی کلکتہ میں ایک جگہ) کے آس پاس اسلحے کی دکانوں میں لوٹ مار شروع ہو گئی۔ پھر قتل و غارت اور لوٹ مار ہوئی۔ یہ ‘ایکشن’ بعد میں نارکیل ڈانگہ اور کولوٹولہ تک پھیل گیا۔

شانتنو کو خدشہ ہے کہ فلم گوپال پاٹھا کے اپنے لوگوں کو دیے گئے پیغام کی نفی کرے گی؛’معصوموں کو مت مارو۔ بچوں اور عورتوں کی حفاظت کرو، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان۔’

انھوں نے کہا، ‘فساد کی مخالفت کرنے کے لیے میرے دادا  جی نے اپنے حامیوں کو منظم کیا اور ہتھیار اٹھائے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر لیگی فسادی ایک شخص کو ماریں گے تو آپ دس کو مارو۔ لیکن کسی بے گناہ مسلمان کو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔’

شانتنو نے مزید کہا، ‘فلم کے ٹریلر نے ایک جملے میں میرے دادا کی شخصیت کو محدود کر دیا ہے – ‘ایک تھا قصائی’۔ لیکن ہمارا ماننا ہے کہ گوپال پاٹھا صرف قصائی  نہیں تھے۔ وہ مجاہد آزادی اور سماجی کارکن بھی تھے۔’

شانتنو کا خیال ہے کہ فلمسازوں نے صحیح تحقیق نہیں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘مجھے لگتا ہے کہ فلم میں تحقیق ٹھیک طریقے سے نہیں کی گئی ہے اور اس سے میرے دادا کی ساکھ کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ گوپال پاٹھا ‘مہاتما گاندھی اور نیتا جی دونوں کے پیروکار تھے۔’

شانتنو نے ٹریلر کے اس حصے پر بھی اعتراض کیا جہاں اداکار سورو داس (جو گوپال پاٹھا کا کردار ادا کررہے ہیں) کہتے نظر آتے ہیں: ‘ہندوستان ہندوؤں کا ملک  ہے… ہندو یہ جنگ ہار رہے ہیں… جیت کون رہا ہے؟ جناح… ہم سب نشے میں  چور ہیں اور اس نشے کا نام  ہےگاندھی کا عدم تشدد ۔’

شانتنو نے کہا؛

میرے دادا جی نے گاندھی جی کے پیروکار کے طور پر شروعات کی۔ پھر نیتا جی کی طرح انہوں نے محسوس کیا کہ مسلح جدوجہد ضروری ہے۔ انہیں مسلمانوں اور گاندھی کے دشمن کے طور پر پیش کرنا سراسر غلط ہے۔ ٹریلر میں گوپال پاٹھا کو بھگوا جھنڈوں کے درمیان تلوار کے ساتھ دوڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔

شانتنو کی بڑی بہن نیتا کا کہنا ہے کہ گوپال مکھرجی نے 1935 میں پریم چند بورال اسٹریٹ پر اپنی گوشت کی دکان کھولی تھی۔ یہ دکان 2015 میں بند ہو گئی ۔ تاہم اس خاندان کے پاس اب بھی جادوبابور مارکیٹ میں ایک اور گوشت کی دکان ہے۔

شانتنو نے کہا، ‘میرے دادا ڈائریکٹ ایکشن ڈے سے پہلے اور بعد میں بھی مسلمان تاجروں سے بکرے خریدتے تھے۔’

گوپال مکھرجی کا انتقال 2005 میں 92 سال کی عمر میں ہوا۔

شانتنو نے پولیس شکایت اور قانونی نوٹس میں لکھا، ‘وویک اگنی ہوتری کی یہ گھنونی حرکتیں جان بوجھ کر، غیر ضروری اور بدنیتی سے میرے دادا کی ساکھ کو داغدار کر رہی ہیں۔ انہیں فرقہ پرست غنڈے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ میرے دادا کے تاریخی کاموں کو مسخ کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی نیت سے کیا جا رہا ہے۔’



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...