بنیادی سوال یہی ہے کہ جو لوگ دستاویز فراہم نہ کر سکے انہیں ووٹر لسٹ سے نکال دیا جائے گا؟ ایسا ہوا تو کروڑ سے زیادہ لوگوں کا نام کٹ جائے گا۔ یا پھر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو اپنے تغلقی فرمان کو بدلنے پر مجبور کرے گا؟ (تصویر بہ شکریہ: الیکشن کمیشن)
اگر آپ کو ملک کی جمہوریت کی فکر ہے تو آپ کو بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل ریویژن'(ایس آئی آر) نامی سرپھرے عمل پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ اگر آپ الیکشن کمیشن جیسے اداروں کی خود مختاری کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، تو آپ کو الیکشن کمیشن کی ہدایات کے تحت بہار میں چل رہی دھوکہ دہی کو سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ حق رائے دہی پر یقین رکھتے ہیں، تو آپ کو بہار میں ووٹن بندی کی سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیونکہ یہ صرف بہار کا معاملہ نہیں ہے۔ بہار صرف پہلی تجربہ گاہ ہے۔ آپ کا نمبربھی آنے والا ہے۔ اگلے ایک سال میں پورے ملک میں ووٹر لسٹ کا اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) ہونے جا رہا ہے۔ رویژن تو صرف نام ہے، حقیقت میں یہ ایک کورے کاغذ پر از سر نو ووٹر لسٹ بنانے کا عمل ہے۔
یہ تو بہانہ ہے کہ اس سے پہلے بھی اس طرح کا ریویژن ہوتا آیا ہے۔ جوبہار میں ہو رہا ہے وہ آج تک ہندوستانی جمہوریت میں کبھی نہیں ہوا۔ آپ نے بھلے ہی پچھلے بیس سالوں میں درجنوں انتخابات میں ووٹ دیا ہو، اب آپ کو نئے سرے سے ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ ہندوستان کے شہری ہیں، ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے حقدار ہیں۔ چوں کہ کہ اب آپ کی شہریت کا فیصلہ ایک گمنام سرکاری ملازم کرے گا ایک ایسے تصدیقی عمل کے ذریعے جس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔
اس لیے ذرا دھیان سے سمجھ لیجیے کہ اس ‘ایس آئی آر’ کے لیے الیکشن کمیشن نے کیا طریقہ کار وضع کیا تھا۔ اور پھر دیکھیے کہ اصل میں زمین پر ہو کیا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سےاچانک 24 جون کو جاری کیے گئے حکم کے مطابق، بہار کی موجودہ ووٹر لسٹ میں شامل تمام 7.9 کروڑ لوگوں کو بی ایل او ان کے گھر جاکر کمیشن کے ذریعہ تیار کیے گئے اسپیل فارم کی دو کاپیاں دیں گے۔ اس فارم پر پہلے سے اس شخص کا نام اور موجودہ ووٹر لسٹ میں اس کی چھپی ہوئی تصویر ہوگی۔ فارم ملنے کے بعد ہر شخص کو اسے پُر کرنا ہوگا، اس میں اپنی نئی تصویر چسپاں کرنا ہوگی اور اپنے دستخط کے ساتھ جمع کرانا ہوگا۔ اور اس کے ساتھ کچھ کاغذات بھی منسلک کرنے ہوں گے۔ جن لوگوں کے نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں تھے وہ صرف 2003 کی ووٹر لسٹ کی ایک کاپی منسلک کر یں گے۔
الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کے نام 2003 کی فہرست میں نہیں تھے انہیں اپنی تاریخ اور جائے پیدائش کے ثبوت کے ساتھ اپنی والدہ یا والد کی پیدائش اور جگہ کے ثبوت یا پھر (2004 کے بعد پیدا ہونے والے) ماں اور باپ دونوں کی پیدائش اور جگہ کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ 25 جولائی سے پہلےکرنا تھا۔ جس شخص کا فارم 25 تاریخ تک جمع نہیں ہوا اس کا نام ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں بھی نہیں آئے گا اور بعد میں اس پر کوئی غور نہیں کیا جائے گا۔ جو دستاویز لگانے ہیں وہ سب 25 جولائی سے پہلے لگانے ہوں گے، اس کے بعد اگست کے مہینے میں صرف جانچ ہوگی۔ یہ تھا الیکشن کمیشن کا تغلقی فرمان۔
فرمان جاری کرنے کے ایک ہفتے میں الیکشن کمیشن کو زمینی حقیقت کا ادراک ہو گیا۔ پھر نوٹ بندی کے خطوط پر ہر روز نئی چھوٹ دینے کا عمل شروع ہوا۔ پہلے الیکشن کمیشن نے کہا کہ جن کے والدین کے نام 2003 کی فہرست میں ہیں انہیں صرف اپنے کاغذات جمع کرانا ہوں گے، والدین کے نہیں۔ پھر اچانک اخبارات میں اشتہار دیا گیا کہ فارم بغیر کاغذات کے بھی جمع کرایا جا سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی شام الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ اصل حکم کے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے!
پھر کہا گیا کہ فارم کی دو کاپیاں دینا ممکن نہیں، بی ایل او پہلے ایک کاپی دے گا، بعد میں دوسری بھی بعد میں دی جائے گی۔ جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو کہا گیا کہ اب تصویر لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن شہروں میں اس سے بھی بات نہیں بن رہی تھی۔ لہٰذا اب بلدیاتی ملازمین کے ذریعے نئی قسم کے فارم بھیجے گئے، جن میں نہ تو ووٹر کا نام چھپا تھا اور نہ ہی تصویر۔
قابل ذکر ہے کہ اب تک بہت ساری تبدیلیاں کی گئی ہیں، لیکن الیکشن کمیشن کے 24 جون کے حکم میں ایک بھی ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ نوٹ بندی کے وقت کم از کم ریزرو بینک قوانین میں ترمیم و اضافہ تو کرتا تھا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے زبانی یا پریس ریلیز سے کام چلا لیا۔
اس کاغذی پردے کے پیچھے زمینی حقیقت اور بھی عجیب تھی۔ پچھلے کچھ دنوں یوٹیوب کے بعض دلیر صحافیوں اور ایک دو اخبارات نے اس کو بے نقاب کیا ہے۔ ہوا یہ کہ الیکشن کمیشن کے اشارے پر بی ایل او نے گھر بیٹھے اپنے رجسٹر سے لوگوں کے فارم بھرنا شروع کر دیے۔ الیکشن کمیشن کو بس ہر شام پریس ریلیز کے لیے نمبر درکار تھے، اس لیے سارا سسٹم اب فائل کا پیٹ بھرنے میں لگ گیا۔ زیادہ تر لوگوں کو نہ تو کوئی فارم ملا (دو فارم نہ ہونے کے برابر خاندانوں تک پہنچے) اور نہ ہی انہوں نے کوئی فارم بھرا۔ لیکن ان کا فارم بھر کر اعداد و شمار میں شامل کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن جن فارم کو پُر کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے، ان میں سے زیادہ تر میں نہ تو دستاویز ہیں، نہ تصاویر اور نہ ہی مکمل معلومات اور شاید دستخط بھی جعلی ہیں۔ دوسری طرف عوام میں افراتفری ہے۔ غریب لوگ بدحواسی کے عالم میں دستاویز کے لیے قطار میں کھڑے ہیں، کسی بھی دستاویز کا بندوبست کرنے کے لیے پیسے دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہار کے تقریباً 40 فیصد لوگوں کے پاس الیکشن کمیشن کی طرف سے مانگے گئے کاغذات میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔
تو اب کیا ہوگا؟
ایک بات توطے ہے کہ 25 جولائی تک الیکشن کمیشن اپنے اعداد و شمار 95 فیصد سے اوپر دکھا کر اپنی جیت کا اعلان کر دے گا (کسے معلوم یہ 100 سے بھی تجاوز کر سکتا ہے)۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد دستاویز کا مطالبہ کیا جائے گا؟جو دستاویز فراہم نہ کرسکے انہیں ووٹر لسٹ سے نکال دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو کروڑ سے زیادہ لوگوں کے نام حذف ہو جائیں گے اور افراتفری پھیل جائے گی۔
یا پھر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو اپنے تغلقی فرمان کو بدلنے کے لیے مجبور کرے گا؟
فیصلہ اب سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بہار میں کوئی راحت مل بھی جاتی ہے تب بھی ووٹ بندی سے نجات نہیں ملے گی۔ یہ تلوار پورے ملک پر لٹکتی رہے گی۔ اس سرپھرے فرمان کو خار ج کروانے کے بعد ہی رائے دہی کے حق کو بچایا جا سکتا ہے۔
(یہ مضمون پہلے نوجیون پر شائع ہوا تھا۔)