بہار ایس آئی آر: سپریم کورٹ نے کہا

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 30, 2025361 Views


ایس آئی آر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے چلائی جارہی اس مہم کے دوران اگر ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر نام خارج کیے جاتے ہیں تو عدالت اس معاملے میں مداخلت کرے گی۔ عدالت نے اس کیس کی حتمی سماعت کی تاریخ 12 اور 13 اگست طے کی ہے۔

تصویربہ شکریہ : الیکشن کمیشن

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (29 جولائی) کو یقین دہانی کرائی کہ اگر بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے چلائی جارہی متنازعہ اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)مہم کے دوران بڑے پیمانے پر رائے دہندگان کو ووٹر لسٹ سے باہر کیا گیا تو وہ مداخلت کرے گی۔

عدالت نے یہ زبانی تبصرہ اس معاملے میں دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کیا۔ عدالت نے اس کیس کی حتمی سماعت کی تاریخ 12 اور 13 اگست مقرر کی ہے جو کہ متنازعہ ووٹر لسٹ کے مسودے کی اشاعت کے تقریباً دو ہفتے بعد ہے۔ یہ فہرست 1 اگست کو جاری کی جانی ہے۔

جسٹس سوریہ کانت اور جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے عرضی گزاروں کے اس خدشے پر تبصرہ کیا  جس میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 65 لاکھ رائے دہندگان کو ووٹر لسٹ سے صرف اس لیے ہٹایا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے فارم نہیں بھرا ہے۔

جسٹس باگچی نے کہا، ‘ہم اس عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اگر لوگوں کو بڑے پیمانے پر باہرکیا گیا تو ہم فوراً مداخلت کریں گے۔’

عدالت نے عرضی گزاروں سے کہا کہ وہ 15 ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو زندہ ہیں اور انہیں  فہرست سے باہر کر دیا گیا ہے۔

ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق یہ 65 لاکھ لوگ یا تو مر چکے ہیں یا مستقل طور پر نقل مکانی کر چکے ہیں، اور اب انہیں دوبارہ درخواست دینا ہوگی۔

آر جے ڈی ایم پی منوج جھا کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن ان تمام 65 لاکھ لوگوں کے نام ڈرافٹ لسٹ میں شامل کرلے اور پھر اعتراضات درج کرنے کا اختیار دیے تو عرضی گزاروں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اس پر جسٹس سوریہ  کانت نے یقین دلایا کہ ‘اگر یہ نام ڈرافٹ لسٹ میں شامل نہیں ہیں تو ہمارے نوٹس میں لائیں، ہم یہاں ہیں اور آپ کی بات سنیں گے۔’

اس سے قبل، سوموار (28 جولائی) کو عدالت میں ہوئی سماعت میں  سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا تھا کہ آدھار اور ووٹر آئی ڈی کو دستاویزی ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے۔ اگرچہ عدالت نے 1 اگست کو شائع ہونے والی مسودہ فہرست پر روک لگانے سے انکار کر دیا، لیکن یہ کہا کہ اگر اس عمل میں کوئی غیر قانونی قدم پایا جاتا ہے، تو پورے عمل کو رد کیا جا سکتا ہے۔

ایس آئی آر کے عمل کے خلاف کیس میں درخواست گزاروں میں کانگریس، سی پی آئی، ڈی ایم کے، آر جے ڈی سمیت کئی اپوزیشن پارٹیاں شامل ہیں، نیز سول سوسائٹی تنظیموں جیسے پی یو سی ایل اور اے ڈی آر کے کارکن شامل ہیں۔

درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ یہ عمل عوامی نمائندگی ایکٹ، 1950 کی خلاف ورزی کرتا ہے، کیونکہ ایس آئی آرمیں شہریوں پر اہلیت ثابت کرنے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگوں، خاص طور پر غریب تارکین وطن، دلت اور مسلمانوں کو ووٹر لسٹ سے ہٹائے جانے کا اندیشہ ہے۔

وہیں، الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر کو ایک ضروری عمل قرار دیا ہے، جس کا مقصد دو دہائیوں کے بعد ووٹر لسٹ کو درست کرنا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں کی شکایت سیاسی جماعتوں نے خود کی تھی۔ کمیشن نے آدھار اور راشن کارڈ کو اہم ثبوت ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دھوکہ دہی سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

فہرست سے حقیقت میں کتنے لوگوں کو خارج کیا گیا ہے اور کیا واقعی سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑے گی یہ  1 اگست کو جاری ہونے  والی فہرست کے بعد واضح ہو پائے گا۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...