مئی میں بھارت کے ساتھ تصادم نے اچانک پاکستان کے عالمی تشخص کو انتہائی بہتر بنایا ہے جبکہ اسے سفارتی اور اسٹریٹجک عروج کا ایک نادر موقع بھی فراہم کیا ہے۔ جغرافیائی معاشی محاذ پر جدوجہد کرنے والا پاکستان اب جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں مضبوط کردار ادا کررہا ہے جہاں وہ نہ صرف واقعات پر ردعمل ظاہر کررہا ہے بلکہ خطے اور اس سے باہر اپنے کردار کو فعال طور پر تشکیل دے رہا ہے۔
اگرچہ یہ تنازع خطرناک تھا لیکن اس نے غیرمتوقع طور پر پاکستان کی سفارتی مدد کی۔ بھارت طویل عرصے سے پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کے لیے دہشتگردی کی حمایت کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے لیکن پہلگام واقعے کے بعد مصدقہ شواہد پیش نہ کرپانے پر اب اس کا بیانیہ قابلِ یقین نہیں رہا۔
پاکستان کے نپے تلے لیکن مضبوط فوجی ردعمل نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا اور اس کے لیے نئے اسٹریٹجک اعتماد کی راہ ہموار کی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے خاموشی سے امریکا کے ساتھ اپنے سیکیورٹی تعلقات کی تعمیرِ نو شروع کر دی ہے جس نے اسے عالمی سیاست میں مزید اثر و رسوخ فراہم کیا ہے۔
چونکہ پاکستان عالمی سیاست میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے، ایسے میں چند عوامل اہم ہیں۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا اسٹریٹجک شراکت دار ہے جس کے بعد ترکیہ ہے۔ ملک کے غیراستعمال شدہ معدنی ذخائر بھی اتنے ہی اہم ہیں جو اب بین الاقوامی توجہ مبذول کر رہے ہیں۔ افغانستان کا بدلتا ہوا منظرنامہ اور پاکستان کی انسدادِ دہشتگردی کی کوششوں نے علاقائی سلامتی کی بات چیت میں پاکستان کو مزید اہم کردار بنا دیا ہے۔ ایران-اسرائیل تنازع کے دوران پاکستان کی سفارت کاری نے بھی اس کے امیج کو بہتر بنایا۔
یہ تبدیلیاں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں ہو رہی ہیں جس میں مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور قفقاز کا خطہ شامل ہے۔ پاکستان اب وسطی ایشیا اور قریبی جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چونکہ کچھ ممالک بھارت سے ناخوش ہیں اور روس قلیل مدتی مفادات پر زیادہ توجہ دیتا ہے تو پاکستان کے پاس نئی شراکت داری قائم کرنے کا موقع ہے، بشرطیکہ وہ اسٹریٹجک ہم آہنگی برقرار رکھ سکے۔
تاہم ان نئے بین الاقوامی مواقع کا انحصار پاکستان کے اندرونی طور پر مضبوط ہونے پر ہے۔ عالمی معاملات یا جغرافیائی سیاست میں اپنی بڑھتی ہوئی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے، سیاسی استحکام کو بہتر بنانے اور اپنے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ داخلی استحکام کے بغیر، سفارت کاری میں کوئی بھی پیش رفت ممکن نہیں۔
پاکستان کو ادراک ہے کہ حالیہ اسٹریٹجک اور سفارتی فوائد کو برقرار رکھنے کے لیے دہشتگردی کے خلاف زیادہ مؤثر اور ترقی یافتہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ گزشتہ ہفتے اس وقت واضح طور پر سامنے آیا کہ جب فوجی قیادت نے تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف ’ہر سطح پر فیصلہ کن اور جامع اقدامات‘ کی ضرورت پر زور دیا۔
اس وقت پاکستان افغانستان سے ملحقہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میں انسدادِ شورش اور انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے جبکہ ان کوششوں کا بین الاقوامی کرداروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ تاہم جو چیز خطرے کا باعث بنی ہوئی ہے اور جس چیز کا بھارت مسلسل استحصال کرتا ہے، وہ ہے لشکر طیبہ اور جیشِ محمد جیسے کالعدم گروہوں کی پاکستان میں طویل عرصے سے موجودگی جو کبھی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم تھے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان نے ان نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں، جبکہ ایف اے ٹی ایف کی ضروریات اور بالخصوص واشنگٹن اور یورپی ممالک سے مسلسل سفارتی دباؤ کے نتیجے میں پاکستان نے فعال کارروائیاں کی ہیں۔
ان اقدامات کے باوجود بھارت مسلسل اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ان گروہوں کے عناصر پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں سرگرم ہیں۔ بھارت نے اس دلیل کو مؤثر طریقے سے بین الاقوامی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کیا ہے خاص طور پر مغربی حکومتوں میں جبکہ وہ اسے سفارتی ہتھکلنڈے کے طور پر استعمال کرنے سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر بھی نہیں آتا۔
تاہم یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ صرف ایک ہی پیغام بار بار دہرانا کافی نہیں ہے بلکہ بھارت کو دیگر ممالک کو قائل کرنے کے لیے ٹھوس شواہد یا نئی وجوہات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت انہیں فراہم نہیں کرسکتا تو اس کا بیانیہ کمزور ہونا شروع ہوسکتا ہے جس سے دونوں ممالک کو بات کرنے کا زیادہ متوازی اور منصفانہ موقع مل سکتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کو جمع کروائی گئی تازہ ترین رپورٹس دہشتگردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے متضاد نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکستان کی رپورٹ ایک واضح اور منظم کوشش کو ظاہر کرتی ہے جسے اس کے اداروں کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی رپورٹ مکمل یا متوازن تصویر پیش کرنے کے بجائے اپنے سیاسی بیانیے کی حمایت پر زیادہ مرکوز نظر آتی ہے۔
ایف اے ٹی ایف کو بھارتی رپورٹ میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ دہشتگرد ای کامرس، آن لائن ادائیگیوں اور وی پی اینز جیسی چیزوں کو فنڈنگ میں کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت نے دو مثالیں پیش کی ہیں، ایک اپریل 2022ء میں گورکھ ناتھ مندر پر ناکام حملے کی ہے جبکہ دوسری فروری 2019ء کے بھارتی فوجی دستے پر خودکش بم دھماکے کے بارے میں ہے جس میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ میں پہلگام کے حالیہ واقعے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی تشویش ظاہر کی ہے کہ پاکستان کس طرح ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کی تعمیل کررہا ہے۔
بھارت نے ایف اے ٹی ایف کو جو مثالیں دی ہیں، ان میں اس نے واضح طور پر معلومات کے حصول کے ذرائع کی شناخت نہیں دی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے اپنی رپورٹ اس بات پر مرکوز کی کہ کس طرح کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراساں جیسے دہشتگرد گروپ غیر رسمی بینکنگ سسٹم کا استعمال کرکے اور اغوا برائے تاوان کی رقم وصول کرکے اپنے لیے فنڈنگ جمع کرتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ اس کی معلومات کا ذریعہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ہے، یوں اس کی رپورٹ زیادہ معتبر معلوم ہوتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ جہاں بھارت اب بھی دہشتگردی کے بارے میں اپنے بیانیے کا سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال جاری رکھے ہوئے ہے وہیں پاکستان دکھا رہا ہے کہ وہ ادارہ جاتی اعتبار اور ریگولیٹری تعمیل کے ذریعے آہستہ آہستہ خود کو تبدیل کر رہا ہے اور اپنا تشخص بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ آج کی بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں پاکستان کا زیادہ محتاط اور قابل اعتماد اندازِ فکر، دیرپا فائدے کا باعث بنے گا۔
بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس نے ایف اے ٹی ایف کے نتائج کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ غلط اخذ کیا گیا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی تعمیل نہیں کررہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے نہ تو پاکستان کے خلاف کوئی انتباہ جاری کیا ہے اور نہ ہی تعمیل کی موجودہ اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی انسداد دہشتگردی کی مالی معاونت کی کوششوں کو ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک نے سراہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے جیسے دنیا کا دہشتگردی کے بارے میں بھارتی بیانیے پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے وہیں پاکستان اسی کی حکمت عملی پر چلتے ہوئے اب اپنی سرزمین پر ہونے والے دہشتگردانہ اقدام کا ذمہ دار بھارت کو قرار دے رہا ہے۔ لیکن بھارتی بیان بازی کی روش پر چلنے کے بجائے پاکستان کے لیے اپنا اسٹریٹجک لائحہ عمل ترتیب دینا زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول پاکستان کے حق میں تبدیل ہورہا ہے۔ اس سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو مستقل اور قابل بھروسہ کوششوں کے ذریعے دہشتگردی اور شورش کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ یہ صرف جوابی بیانیہ بنانے سے زیادہ کا کام کرے گا اور دونوں ممالک کے درمیان فرق معنی خیز انداز میں دنیا کو وضع کرے گا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔