نئی دہلی نے امریکی ہتھیاروں اور طیاروں کی نئی خریداری کے منصوبے مؤخر کر دیے، معاملے سے واقف 3 بھارتی حکام کے مطابق یہ بھارت کی جانب سے پہلا ٹھوس اشارہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی برآمدات پر محصولات عائد کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات دہائیوں کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت آئندہ ہفتوں میں اپنے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو واشنگٹن بھیجنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ کچھ خریداری کے اعلانات کیے جا سکیں، مگر 2 ذرائع کے مطابق یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کی جانب سے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھنے پر 6 اگست کو بھارتی اشیا پر مزید 25 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی، جس کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ اس سے روس کے یوکرین پر حملے کی مالی معاونت ہو رہی ہے۔
اس اضافے سے بھارتی برآمدات پر ٹیکس 50 فیصد ہو گیا تھا جو امریکا کے کسی بھی تجارتی شراکت دار کے لیے سب سے زیادہ میں سے ہے۔
صدر ٹرمپ کا ماضی میں محصولات پر اپنے فیصلے جلدی واپس لینے کا ریکارڈ رہا ہے اور بھارت کا کہنا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے، ایک ذریعے کے مطابق دفاعی خریداری اس وقت آگے بڑھ سکتی ہے جب بھارت کو محصولات اور تعلقات کی سمت پر وضاحت ملے۔
راج ناتھ سنگھ کا واشنگٹن کا دفاعی خریداری کے لیے مجوزہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔
ایک اور اہلکار نے کہا کہ خریداری کو روکنے کی کوئی تحریری ہدایت جاری نہیں کی گئی، اس کا مطلب ہے کہ دہلی جلدی سے فیصلہ بدل سکتا ہے، مگر فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد بھارتی حکومت نے وزارت دفاع کے ایک ذریعے سے منسوب بیان جاری کیا، جس میں دفاعی مذاکرات کو روکنے کی خبروں کو جھوٹ اور من گھڑت قرار دیا گیا، بیان میں مزید کہا گیا کہ خریداری مروجہ طریقہ کار کے مطابق جاری ہے۔
گزشتہ برسوں میں امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے والے دہلی کا کہنا ہے کہ اسے ناحق نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب کہ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی بھی ماسکو سے اپنی سہولت کے مطابق تجارت جاری رکھتے ہیں۔
’رائٹرز‘ پہلی بار یہ رپورٹ کر رہا ہے کہ جنرل ڈائنامکس لینڈ سسٹمز کے تیار کردہ اسٹرائیکر جنگی گاڑیاں اور ریتھیون و لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ جیولن اینٹی ٹینک میزائل خریدنے پر بات چیت محصولات کے باعث روک دی گئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فروری میں ان اشیا کی خریداری اور مشترکہ پیداوار کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، راج ناتھ سنگھ 6 بوئنگ پی 81 جاسوسی طیاروں اور بھارتی بحریہ کے لیے معاون نظاموں کی خریداری کا اعلان بھی کرنے والے تھے، جو منسوخ شدہ دورے میں متوقع تھا۔
اہلکاروں کے مطابق 3 ارب 60 کروڑ ڈالر کے سودے کے لیے بات چیت آخری مراحل میں تھی۔
بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن اور جنرل ڈائنامکس نے تبصرے کے لیے بھارتی اور امریکی حکومتوں کی طرف رجوع کرنے کا کہا اور کوئی جواب نہیں دیا۔
امریکا کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے سلامتی کے تعلقات (جنہیں چین کے ساتھ مشترکہ اسٹریٹجک حریف سمجھا جاتا ہے) کو پہلی ٹرمپ انتظامیہ میں خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی کہا جاتا تھا۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کنندہ ہے اور ماضی میں روس اس کا سب سے بڑا سپلائر رہا ہے، تاہم حالیہ برسوں میں بھارت نے فرانس، اسرائیل اور امریکا جیسے مغربی ممالک سے زیادہ خریداری شروع کی ہے۔
مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سپلائرز کی اس تبدیلی کی ایک وجہ یہ تھی کہ روس، یوکرین میں اپنی جنگ میں مصروف ہونے کے باعث ہتھیار برآمد کرنے کی صلاحیت میں محدود ہو گیا ہے، روس کے کچھ ہتھیار جنگ کے میدان میں ناقص کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
ایک بھارتی اہلکار کے مطابق وسیع تر امریکا-بھارت دفاعی شراکت داری (جس میں انٹیلی جنس کا تبادلہ اور مشترکہ فوجی مشقیں شامل ہیں) بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔
دو بھارتی ذرائع کے مطابق بھارت روس سے تیل کی درآمدات کم کرنے کے لیے بھی تیار ہے، اور اگر مناسب قیمت پر معاہدہ ہو تو امریکا سمیت کہیں اور سے خریداری پر بھی راضی ہے۔
ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی دھمکیوں اور بھارت میں بڑھتی ہوئی امریکا مخالف قوم پرستی نے ’مودی کے لیے روس سے امریکا کی طرف جھکاؤ سیاسی طور پر مشکل بنا دیا ہے‘، تاہم، روسی تیل کی قیمتوں میں دی جانے والی رعایتیں 2022 کے بعد سب سے کم سطح پر آ گئی ہیں۔
بھارتی وزارتِ پیٹرولیم نے تبصرے کی درخواست کا فوراً جواب نہیں دیا۔
اگرچہ امریکا-بھارت تعلقات میں یہ بگاڑ اچانک پیدا ہوا، لیکن ماضی میں بھی کشیدگی رہی ہے، دہلی نے بارہا ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ امریکا نے بھارت اور پاکستان کے درمیان 4 دن کی لڑائی کے بعد جنگ بندی کرائی تھی۔
ٹرمپ نے اس جھڑپ کے چند ہفتوں بعد پاکستانی فوج کے سربراہ کو وائٹ ہاؤس میں خوش آمدید کہا تھا۔
حالیہ مہینوں میں ایک بھارتی اور ایک روسی ذریعے کے مطابق ماسکو، دہلی کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے اپنے نئے دفاعی نظام S-500 بیچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
2 بھارتی حکام کے مطابق اس وقت بھارت کو روس سے نئی اسلحہ خریداری کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔
تاہم ایک اہلکار کے مطابق دہلی، روسی ہتھیاروں سے مکمل طور پر تعلق توڑنے کا امکان نہیں رکھتا، کیونکہ دہائیوں پر محیط شراکت داری کی وجہ سے بھارتی فوجی نظام روسی تعاون کا محتاج رہے گا۔
روس کے دہلی میں سفارت خانے نے تبصرے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔