معصوم بچے کسی بھی معاشرے کا سب سے نازک، قیمتی اور حساس سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی پرورش، حفاظت اور تربیت والدین اور معاشرے دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آج کے دور میں جہاں سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں بچوں کے خلاف خطرات بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ ایسے میں بچوں کو یہ سکھانا کہ وہ کسی غیر کے ہاتھ سے کھانے کی چیز نہ لیں اور کسی انجان کے ساتھ ہرگز نہ جائیں، صرف احتیاطی قدم نہیں بلکہ ایک ضروری حفاظتی تربیت ہے جو اُن کی جان بچا سکتی ہے۔
آج کے معاشرے میں بچوں کا اغواء، زیادتی، زہر آلود اشیاء کھلا کر نقصان پہنچانا یا انہیں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں استعمال کرنا معمول بنتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ بچے چھوٹی عمر سے ہی ان خطرات سے واقف ہوں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اعتماد کے ساتھ یہ بات سمجھائیں کہ ہر مسکراہٹ محفوظ نہیں ہوتی اور ہر مٹھائی دینے والا دوست نہیں ہوتا۔ سادہ، محبت بھرے الفاظ میں انہیں بتانا چاہیے کہ کسی بھی اجنبی کا دیا ہوا کھانا، ٹافی، چاکلیٹ یا مشروب نہ صرف نقصان دہ ہو سکتا ہے بلکہ یہ کسی بڑے نقصان کی تمہید بھی ہو سکتا ہے۔
اکثر لوگ بچوں کو کھانے کی چیزیں دے کر اُن سے قربت پیدا کرتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے ان پر اثر انداز ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے جانے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ نرمی، محبت یا ترغیب کے ذریعے تو کچھ لوگ دھمکیوں اور فریب سے بچوں کو قابو میں لیتے ہیں۔ معصوم ذہن ان چالاکیوں کو پہچاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں میں یہ شعور پیدا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کہ کسی غیر سے لین دین، خواہ وہ کھانے کی چیز ہی کیوں نہ ہو، حد سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
مدارس، اسکولوں اور گھریلو تربیت میں ایسے موضوعات پر گفتگو کرنا اب ایک مجبوری بن چکی ہے۔ بچوں کو ڈرا کر نہیں بلکہ سمجھا کر یہ بات سکھانی ہوگی کہ جب بھی کوئی انجان شخص انہیں کچھ دے یا کسی جگہ لے جانے کی کوشش کرے تو وہ فوراً “نہیں” کہیں اور والدین یا کسی ذمہ دار فرد کو مطلع کریں۔ یہ “نہیں” کہنا بچوں کا حق ہے اور انہیں اس حق کے استعمال پر شرمندہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ کچھ والدین خود بچوں کو اجنبی لوگوں کے ساتھ چھوڑنے یا کھانے کی اشیاء دلوانے میں بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں۔ کبھی کسی تقریب میں، تو کبھی بازار میں، وہ اپنے بچوں کو ایسے افراد کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جنہیں وہ خود بھی اچھی طرح نہیں جانتے۔ یہ غفلت نہ صرف خطرناک ہے بلکہ بعض اوقات ناقابل تلافی نقصان کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ والدین کو اپنی ذمہ داری کا مکمل شعور ہونا چاہیے کہ بچوں کی حفاظت صرف اسکول، مسجد یا استاد کی نہیں بلکہ سب سے پہلے ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دور میں ایسے مجرموں کے طریقہ واردات مزید جدید ہو چکے ہیں۔ بچے موبائل اور گیجٹس کے ذریعے بھی ان کے رابطے میں آ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ “کسی غیر کے ساتھ جانا منع ہے” کا دائرہ اب صرف جسمانی ملاقاتوں تک محدود نہیں رہا بلکہ والدین کو بچوں کے آن لائن دوستوں، چیٹ اور میسجز پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اس نگرانی کو سختی کے بجائے محبت، توجہ اور دوستی کے پیرائے میں ادا کیا جائے تاکہ بچے مخالفت کے بجائے تعاون کریں۔
بچوں کو یہ بھی سکھانا چاہیے کہ اگر کوئی شخص انہیں کسی بھی طرح سے الجھن، خوف یا الجھاؤ میں ڈالے تو وہ فوراً “بھروسے کے قابل” بڑے سے بات کریں۔ چاہے وہ والدین ہوں، استاد ہوں یا کوئی اور معتبر فرد۔ بچوں کو مکمل اعتماد دیا جائے کہ وہ کچھ بھی، کسی بھی وقت بتا سکتے ہیں اور ان پر کبھی الزام یا شرمندگی نہیں آئے گی۔ یہ ذہنی اعتماد بچوں کو بیداری، خود اعتمادی اور چالاکی سے فیصلے کرنے کی طاقت دیتا ہے۔
یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہر خطرہ اجنبی کے روپ میں نہیں آتا۔ اکثر نقصان قریبی افراد، پڑوسی، یا جان پہچان کے لوگوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے بچوں کو یہ سکھانا بھی ضروری ہے کہ صرف “اجنبی” نہیں، بلکہ کوئی بھی فرد اگر ان کے ساتھ غیر معمولی رویہ اختیار کرے، کچھ ایسا دے جو عجیب لگے، یا کہیں لے جانے کی ضد کرے تو وہ بغیر جھجک “نہیں” کہیں اور فوراً کسی بڑے کو بتائیں۔ بچوں کو اس بات کا شعور دینا والدین کی تربیت کا ایک اہم حصہ ہونا چاہیے۔
حفاظتی تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کو یہ بھی سکھایا جانا چاہیے کہ کیسے وہ خطرے کی صورت میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ آواز بلند کرنا، بھاگنا، “مدد” کے لیے پکارنا، اور اپنا تحفظ کرنا وہ بنیادی ہنر ہیں جو ہر بچے کو آنے چاہئیں۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں اسکول کی سطح پر بچوں کو “سیلف ڈیفنس” کی تربیت دی جاتی ہے، جو نہایت مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ اس پہلو پر توجہ دے تاکہ بچوں کو اپنی حفاظت کا سلیقہ آئے۔
والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً بچوں سے بات کریں، ان کے خیالات اور جذبات کو سنیں، اور ان کے رویے میں کوئی بھی تبدیلی محسوس کریں۔ بچے اگر خاموش ہوں، خوفزدہ ہوں یا معمول سے ہٹ کر برتاؤ کریں تو اسے معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ پیار سے پوچھا جائے کہ وہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ کئی واقعات میں بچوں نے پہلے ہی غیرمعمولی حالات کو محسوس کیا ہوتا ہے لیکن چونکہ انہیں سننے والا کوئی نہیں تھا، اس لیے وہ کچھ نہیں بول سکے۔
معاشرہ بھی اس معاملے میں خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ اسکولوں، مدرسوں، محلوں اور عوامی مقامات پر ایسا ماحول بنایا جانا چاہیے جہاں بچوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بچوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دیں، اور بچوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کے ساتھ سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے۔ میڈیا، مساجد، خطبات اور تعلیمی اداروں کے ذریعے آگاہی مہمات چلانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بچوں کو یہ سکھانا کہ وہ کسی غیر کے ساتھ نہ جائیں، یا کسی اور کے ہاتھ سے کچھ نہ کھائیں، صرف ایک اصولی ہدایت نہیں بلکہ ان کی جان و عزت کی حفاظت کی ایک بنیادی دیوار ہے۔ یہ دیوار اگر کمزور ہو گئی تو نہ جانے کتنے معصوم خواب، کتنے بے گناہ چہرے اور کتنے ہنستے بستے گھر برباد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ ذمہ داری آج ہی نبھانی ہو گی تاکہ کل ہمارے بچے محفوظ، بااعتماد اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔