برطانوی قانون کی 90 لاکھ لوگوں پرلٹکی تلوار، ہندوستانی ہوں گے سب سے زیادہ متاثر

AhmadJunaidJ&K News urduDecember 15, 2025360 Views


تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ملک میں اگر قوم پرست سیاست پروان چڑھی تو ان اختیارات کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ برطانیہ کے ہوم آفس نے ابھی تک اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>برطانیہ کی ہوم سکریٹری، شبانہ محمود (ویڈیو گریب)</p></div><div class="paragraphs"><p>برطانیہ کی ہوم سکریٹری، شبانہ محمود (ویڈیو گریب)</p></div>

i

user

برطانیہ میں ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت تقریباً 90 لاکھ افراد یعنی ملک کی آبادی کے 13 فیصد لوگ اپنی برطانوی شہریت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ’رنی میڈٹرسٹ‘ اور’ری پریوو‘ نامی اداروں نے جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ قوانین خاص طور پرمسلم کمیونٹی، جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ سےمتعلق افراد کو متاثر کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کی ہوم سیکرٹری شبانہ محمود کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی شخص کی شہریت منسوخ کردیں، اگر انہیں لگتا ہے کہ وہ شخص کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر سکتا ہے، خواہ اس کا اس ملک سے کوئی ذاتی تعلق نہ ہو۔ یہ اختیار قومی سلامتی یا مفاد عامہ کے نام پر استعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ میں اسے’بہت زیادہ اورخفیہ‘ اختیار بتایا گیا ہے جومسلم کمیونٹی کے لئے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

برطانوی قوانین سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہندوستان (9.84 لاکھ افراد)، پاکستان (9.79 لاکھ) اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ ان کے علاوہ صومالیہ، نائیجیریا، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے برطانوی شہری بھی خطرے میں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رنگت والے لوگوں (پیپل آف کلر) میں سے 3 میں سے 5 افراد متاثر ہو سکتے ہیں جبکہ سفید برطانوی لوگوں میں صرف 20 میں سے ایک، یعنی رنگت والے لوگ 12 گنا زیادہ خطرے میں ہیں۔

رپورٹ ونڈرش اسکینڈل کی یاد دلائی گئی ہے، جہاں کیریبین نژاد برطانوی شہریوں سے ان کی شہریت چھین کر ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قوانین شہریت کے دو درجے بنادیتے ہیں: ایک سفید فام برطانوی لوگوں کے لیے مستقل، دوسرا مسلمانوں اور اقلیتی برادریوں کے لیے مشروط۔ ۔

بتادیں کہ 2022 میں بنائے گئے قانون کے مطابق بغیر نوٹس کے شہریت منسوخ کی جاسکتی ہے۔ وہیں2025 میں نیا قانون آیا جس کے تحت عدالت اگر شہریت منسوخی کو غلط بھی مانتی ہے تو اپیل پوری ہونے تک شہریت واپس نہیں ملے گی۔ اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ 2010 سے اب تک 200 سے زائد افراد کی شہریت’ مفاد عامہ‘ کے نام پر منسوخ کی گئی ہے جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ مشہور معاملہ شمیمہ بیگم کا ہے جن کی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی لیکن بنگلہ دیش نے انہیں شہریت دینے سے انکار کردیا۔

مذکورہ اداروں نے ان اختیارات کو فوری طور پر روکنے اور برطانوی شہریت ایکٹ کے سیکشن 40(2) کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر قوم پرست سیاست پروان چڑھی تو ان اختیارات کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ برطانیہ کے ہوم آفس نے ابھی تک اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے مسلم کمیونٹی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔


0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...