
یہ عرضی بنگلور کے رہائشی ایچ ایس گورو نامی شخص کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ میسور دسہرہ محض ایک ثقافتی تقریب نہیں بلکہ یہ ہندو مذہبی رسومات اور عقیدے سے جڑا ایک مقدس تہوار ہے۔ گورو نے دعویٰ کیا کہ اس تہوار کی ابتدا ہمیشہ چامنڈیشوری دیوی کی پوجا اور ویدک منتروں سے ہوتی ہے، لہٰذا اس کا افتتاح صرف کسی ہندو شخصیت کے ہاتھوں ہی ہونا چاہیے۔
عرضی گزار نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ اس تقریب کے افتتاح کو ہندو روایت کا لازمی حصہ قرار دیا جائے۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان دلائل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ 2017 میں بھی ایک ممتاز مسلمان شاعر نثار احمد نے اسی تقریب کا افتتاح کیا تھا اور اس وقت بھی روایت میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی تھی۔ عدالت نے واضح کیا کہ سرکاری تقاریب میں مذہب کی بنیاد پر کسی کو الگ رکھنا یا شامل نہ کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔





