جنوری میں ایلون مسک کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ ایکس’ پر ایک پرانی پوسٹ بھارت کے شہر ستارا میں پولیس کے لیے تشویش کا باعث بن گئی، 2023 میں لکھا گیا یہ مختصر پیغام، جو ایک ایسے اکاؤنٹ سے تھا جس کے چند سو فالوورز تھے، ایک سینئر حکومتی سیاستدان کو ’ ناکارہ’ قرار دیتا تھا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق انسپکٹر جتیندر شاہانے نے ایکس کو بھیجے گئے ایک ’ خفیہ’ نوٹس میں لکھا کہ ’ یہ پوسٹ اور اس کا مواد سنگین فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کا امکان رکھتا ہے۔’
یہ پوسٹ، جو اب بھی آن لائن موجود ہے، ان سیکڑوں میں شامل ہے جنہیں ایکس نے مارچ میں بھارت کی حکومت کے خلاف دائر کردہ مقدمے میں پیش کیا، یہ مقدمہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کو چیلنج کرتا ہے۔
2023 سے، بھارت نے انٹرنیٹ پر کنٹرول سخت کر دیا ہے، جس میں بہت سے سرکاری افسران کو براہ راست ٹیک کمپنیوں کو مواد ہٹانے کے احکامات جاری کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، اور اکتوبر میں ایک سرکاری ویب سائٹ کے ذریعے یہ احکامات بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکس کا کہنا ہے کہ بھارت کے اقدامات غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں، اور وہ آزادی اظہار کو کچلتے ہیں، کیونکہ انہوں نے متعدد سرکاری ایجنسیوں اور ہزاروں پولیس اہلکاروں کو عوامی عہدیداروں پر جائز تنقید دبانے کا اختیار دے دیا ہے۔
بھارت نے عدالت میں کہا ہے کہ اس کا طریقہ کار غیر قانونی مواد کے پھیلاؤ کو روکنے اور آن لائن احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ہے، اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ میٹا اور گوگل جیسی کمپنیاں ان اقدامات کی حمایت کرتی ہیں، دونوں کمپنیوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ایلون مسک، جو خود کو آزادی اظہار کا مکمل حامی کہتے ہیں، ان کی پہلے بھی امریکا، برازیل، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں حکام سے ایسی ہی ’ جھڑپیں’ ہوچکی ہیں۔
لیکن جیسے جیسے دنیا بھر میں حکام نقصان دہ مواد اور آزادیِ اظہار کے درمیان توازن تلاش کر رہے ہیں، مسک کا مقدمہ کرناٹک ہائی کورٹ میں بھارت کی انٹرنیٹ سنسرشپ کی بنیاد کو ہی چیلنج کرتا ہے، واضح رہے کہ بھارت ایکس کا ایک بڑا صارف ملک ہے۔
ایلون مسک نے 2023 میں کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کا یہ ملک’ دنیا کے تمام بڑے ممالک سے زیادہ امکانات رکھتا ہے’ اور یہ کہ مودی نے انہیں یہاں سرمایہ کاری کی ترغیب دی۔
یہ کہانی، جو رائٹرز کی جانب سے 2500 صفحات پر مشتمل غیر اعلانیہ عدالتی فائلوں اور سات پولیس افسران سے انٹرویوز پر مبنی ہے، دنیا کے امیر ترین شخص اور سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے درمیان پس پردہ ہونے والی کشمکش کو بے نقاب کرتی ہے۔
یہ نظام کی خفیہ نوعیت، بھارتی حکام کی ایکس پر موجود مبینہ ’ غیر قانونی’ مواد پر ناراضگی، اور اس وسیع مواد کی جھلک دکھاتی ہے جسے پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے ہٹانے کی کوشش کی۔
بعض احکامات غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے تھے، لیکن کچھ احکامات مودی حکومت کی جانب سے ایک بھگدڑ ، جس میں جانیں گئیں، سے متعلق خبروں کو ہٹانے، وزیراعظم پر طنزیہ کارٹونز، اور مقامی سیاستدانوں کا مذاق اڑانے والے مواد کو ختم کرنے سے متعلق بھی تھے۔
ایکس نے رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا، جبکہ بھارت کی وزارت آئی ٹی نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، مودی کے دفتر اور وزارت داخلہ نے بھی کوئی ردعمل نہیں دیا۔
یہ کشمکش ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مسک بھارت میں اپنی کمپنیوں ٹیسلا اور اسٹارلنک کو وسعت دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
حتیٰ کہ مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی بھی اب ان افسران کی نظروں میں ہیں، جنہیں آئی ٹی وزارت نے سوشل میڈیا پر مواد ہٹانے کا اختیار دے دیا ہے۔
مارچ میں، وکیل اور بی جے پی کے رکن کوستاو باگچی نے ایکس پر ایک تصویر پوسٹ کی جس میں ان کی سیاسی مخالف اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو خلاباز کے لباس میں دکھایا گیا تھا، ریاستی پولیس نے پوسٹ کے خلاف ٹیک ڈاؤن نوٹس جاری کیا، جس میں اسے ’ عوامی تحفظ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ’ قرار دیا گیا۔
کوستاو باگچی نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ پوسٹ ’ مزاحیہ’ تھی اور انہیں اس ٹیک ڈاؤن نوٹس کا علم نہیں تھا، ممتا بینرجی کے دفتر اور ریاستی پولیس نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ستارا کے پولیس افسر شاہانے نے کہا کہ انہیں 2023 کا مذکورہ ٹیک ڈاؤن یاد نہیں، لیکن پولیس بعض اوقات ازخود پلیٹ فارمز سے وائرل اور نامناسب مواد کو بلاک کرنے کا کہتی ہے۔
کئی سالوں تک، صرف بھارت کی آئی ٹی اور اطلاعات و نشریات کی وزارتیں مواد ہٹانے کا حکم دے سکتی تھیں، وہ بھی صرف خودمختاری، دفاع، سیکیورٹی، خارجہ تعلقات، امن عامہ یا اشتعال انگیزی سے متعلق خطرات کی صورت میں، ملک بھر میں صرف 99 افسران کو سفارش کی اجازت تھی، لیکن حتمی فیصلہ وزارتیں کرتی تھیں۔
یہ نظام اب بھی موجود ہے، لیکن 2023 میں مودی کی آئی ٹی وزارت نے تمام وفاقی اور ریاستی ایجنسیوں اور پولیس کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ ’ کسی بھی قانون کے تحت ممنوع معلومات’ کے خلاف ٹیک ڈاؤن نوٹس جاری کر سکیں، وزارت نے اس اقدام کو’ موثر مواد ہٹانے’ کی ضرورت قرار دیا۔
اگر کمپنیاں ان احکامات پر عمل نہ کریں، تو وہ صارف کے مواد کی قانونی ذمہ داری سے محروم ہو سکتی ہیں، اور وہی سزائیں بھگت سکتی ہیں جو مواد شائع کرنے والے صارف کو ہو سکتی ہیں۔
مودی حکومت نے اکتوبر 2024 میں ایک قدم اور آگے بڑھایا، اور ’ سہیوگ’ نامی ویب سائٹ کا آغاز کیا ، جس کا مطلب ہے ’ تعاون’ ، تاکہ ٹیک ڈاؤن نوٹس جاری کرنے کا عمل سہل بنایا جا سکے، عدالتی کاغذات کے مطابق حکومت نے بھارتی افسران اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس میں شامل ہونے کو کہا۔
ایکس نے سہیوگ میں شمولیت سے انکار کر دیا اور اسے ’ سنسرشپ پورٹل’ قرار دیا، اور حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا، جس میں اس ویب سائٹ اور 2023 کی ہدایت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔
24 جون کو دائر کردہ ایک فائلنگ میں ایکس نے کہا کہ بلاکنگ سے متعلق بعض احکامات میں حکومتی تنقید یا طنز پر مبنی مواد کو نشانہ بنایا گیا ہے، اور اس سے آزادی اظہار کو دبانے کے لیے اختیارات کے غلط استعمال کی مثال سامنے آتی ہے۔
کچھ آزادی اظہار کے حامیوں نے حکومت کے اس سخت ٹیک ڈاؤن نظام پر تنقید کی ہے، جس کا مقصد اختلاف رائے کو دبانا بتایا گیا۔
رائٹرز کی جانب سے دیکھی گئی عدالتی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارچ 2024 سے جون 2025 کے درمیان وفاقی اور ریاستی ایجنسیوں نے ایکس کو تقریباً 1400 پوسٹس یا اکاؤنٹس ہٹانے کے احکامات جاری کیے۔
ان میں سے 70 فیصد سے زیادہ احکامات بھارتی سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر کی جانب سے جاری کیے گئے، جس نے سہیوگ ویب سائٹ تیار کی تھی۔
یہ ادارہ وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا ہے، جس کی سربراہی مودی کے قریبی ساتھی اور بی جے پی کے بااثر رہنما امت شاہ کرتے ہیں۔
ایکس کے خلاف عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے حکومت نے سائبر کرائم یونٹ کی تیار کردہ 92 صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی، جس میں بتایا گیا کہ ایکس ’ غیر قانونی مواد’ کی میزبانی کر رہا ہے، رپورٹ میں تقریباً 300 پوسٹس کا تجزیہ کیا گیا، جنہیں غلط معلومات، جھوٹے دعوے، اور بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کے طور پر درج کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایکس نفرت اور تقسیم پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے، جو معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے، جبکہ پلیٹ فارم پر ’ جعلی خبریں’ قانون و امن کے مسائل کو جنم دے چکی ہیں۔
حکومت کی رپورٹ میں بعض غلط معلومات کی مثالیں بھی شامل کی گئیں، جنوری میں سائبر کرائم یونٹ نے ایکس سے تین پوسٹس ہٹانے کا مطالبہ کیا، جن میں جے شاہ (امت شاہ کے بیٹے) کو ایک عورت کے ساتھ، جو بکنی پہنے ہوئی تھی، دکھایا گیا تھا، حکام کے مطابق یہ تصاویر جعلی تھیں۔
نوٹس میں کہا گیا کہ یہ پوسٹس ’ نمایاں عہدیداروں اور وی آئی پیز کی توہین’ کرتی ہیں۔
ان میں سے دو پوسٹس اب بھی آن لائن ہیں، جے شاہ نے رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
دوسرے احکامات جعلی خبروں سے آگے بڑھ کر میڈیا رپورٹنگ تک جا پہنچے، ایکس نے عدالت کو بتایا کہ بھارت کی ریلوے وزارت نے عوامی دلچسپی کے امور پر مبنی خبریں ہٹانے کے احکامات جاری کیے، جن میں فروری میں نئی دہلی کے ایک بڑے ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ میں 18 افراد کی ہلاکت کی کوریج شامل تھی، جنہیں این ڈی ٹی وی سمیت کئی میڈیا اداروں نے رپورٹ کیا تھا۔
یہ پوسٹس اب بھی آن لائن ہیں، این ڈی ٹی وی اور ریلوے وزارت نے رائٹرز کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اپریل میں، چنئی پولیس نےایکس کو کئی ’ انتہائی توہین آمیز’ اور ’ اشتعال انگیز’ پوسٹس ہٹانے کے لیے کہا، جن میں ایک کارٹون بھی شامل تھا، جس میں ’ افراط زر’ کے لیبل والا ایک سرخ ڈائناسور دکھایا گیا تھا، اور مودی و تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ کو قیمتوں پر قابو پانے میں ناکام دکھایا گیا تھا۔
اسی مہینے، پولیس نے ایک اور کارٹون ہٹانے کا مطالبہ کیا، جس میں ریاستی حکومت کی سیلاب کی تیاری کی ناکامی کو سوراخوں والی کشتی کے ذریعے ظاہر کیا گیا تھا۔
ایکس نے عدالت میں کہا کہ یہ کارٹون نومبر میں پوسٹ ہوا تھا، اور کئی ماہ بعد یہ کوئی سیاسی کشیدگی نہیں بھڑکا سکتا۔
ریاستی حکومت نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
جب رائٹرز نے چنئی میں اس سائبر کرائم پولیس اسٹیشن کا دورہ کیا، جس نے یہ احکامات جاری کیے تھے، تو ڈپٹی کمشنر بی گیتھا نے شکایت کی کہ ایکس شاذ و نادر ہی ٹیک ڈاؤن درخواستوں پر عمل کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ’ ایکس ہماری ثقافتی حساسیت کو مکمل طور پر نہیں سمجھتا، جو کچھ کچھ ممالک میں قابل قبول ہو، وہ بھارت میں ممنوع ہو سکتا ہے۔’