جمعہ 13 جون کو جب اسرائیلی میزائل تہران پر برسنے لگے، تب بہت سے لوگ تہران سے ایران کے شمالی علاقوں کی طرف فرار ہو گئے، لیکن شمسی جیسے افغان پناہ گزینوں اور ان کے خاندانوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ شمسی کو ایک بار پھر احساس ہوا کہ وہ اور ان کا خاندان کتنے غیر محفوظ ہیں۔ 34 سالہ شمسی، جو دو بچیوں کی ماں ہیں شمالی تہران میں سلائی کا کام کر رہی تھیں۔ خوف اور گھبراہٹ کے عالم میں بھاگ کر گھر پہنچیں تو دیکھا کہ ان کی پانچ اور سات سال کی بیٹیاں خوف سے میز کے نیچے چھپی ہوئی تھیں۔ شمسی نے طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے ایک سال قبل تحفظ کی غرض سے ایران کا رخ کیا تھا۔ لیکن اب، وہ بغیر دستاویزات کے، خوف زدہ حالت میں، ایک اور خطرناک صورتحال میں پھنس چکی ہیں – اس بار نہ کوئی پناہ، نہ کوئی قانونی حیثیت، نہ نکلنے کا کوئی راستہ۔
حفاظتی وجوہات کی بنا پر صرف اپنا پہلا نام ظاہر کرنے کی درخواست کیساتھ شمسی نے ’الجزیرہ ‘کو بتایا،”ہم طالبان سے بچ کر نکلے تھے، ہم یہاں حفاظت کے لیے آئے تھے، لیکن یہاں ہمارے سروں پر بم برس رہے تھے ۔” افغانستان میں ایک سرگرم کارکن رہی شمسی اور ان کے شوہر، جو ایک سابق افغان فوجی ہیں، عارضی ویزا پر ایران آئے۔ انہیں طالبان کے انتقام کا خوف تھا۔ لیکن وہ ویزا کی مدت بڑھانے سے قاصر رہے کیونکہ اس کے لیے انہیں ایران چھوڑ کر طالبان کے زیرِ کنٹرول افغانستان واپس جانا لازمی تھا – جو ایک نہایت خطرناک سفر ہوتا۔