ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران آپسی وقار کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ مذاکرہ پھر سے شروع کرنے کے لیے راضی ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اپنا رویہ بدلے۔ ’اسلامک ریپبلک نیوز ایجنسی‘ (آئی آر این اے) کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ ’’امریکہ کو سب سے پہلے اپنا رویہ بدلنا ہوگا اور یہ گارنٹی دینی ہوگی کہ وہ بات چیت کے دوران ایران پر آگے کوئی فوجی حملہ نہیں کرے گا۔‘‘
عراقچی کا کہنا ہے کہ ڈپلومیسی دوطرفہ راستہ ہوتا ہے۔ امریکہ نے ہی بات چیت توڑ کر فوجی کارروائی کا سہارا لیا تھا، اس لیے امریکہ کے لیے اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرنا اور سلوک میں بدلاؤ لانا بے حد ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں اس بات کا بھروسہ چاہیے کہ امریکہ مستقبل میں کسی بھی بات چیت کے دوران فوجی حملوں سے پرہیز کرے گا۔‘‘
فرانسیسی اخبار ’لے مونڈے‘ کو دیے ایک انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرہ سے متعلق کچھ اہم باتیں سامنے رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’سفارتکاروں سے رابطے اور لین دین ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں دوست ممالک یا ثالثوں کے ذریعہ ایک ڈپلومیٹک ہاٹ لائن قائم کی جا رہی ہے۔‘‘ سرکردہ ایرانی لیڈر نے امریکی حملوں سے ایران کے جوہری تنصیبات کو ہوئے نقصان پر بھی بات کی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ نقصان کی حد کا اندازہ ہونے کے بعد ایران معاوضہ مانگنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے کے مطابق عراقچی نے کہا کہ ’’ایران کے خلاف ہوئی کارروائی سے ہوئے نقصانات کے لیے معاوضہ مانگنا ہمارا حق ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ جوہری پروگرام تباہ ہو گیا ہے، جس سے ایک ملک کو توانائی، طب، دوا، زراعت اور ترقی سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے مقصد سے پُرامن جوہری پروگراموں کو چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے، ایک بڑی غلط فہمی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام، جو انٹرنیشنل ایٹمک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی لگاتار نگرانی میں آپریٹ ہوتا ہے، محض فیزیکل اسٹرکچر سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔