امریکی صدر چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ایران جوہری امور پر مذاکرہ شروع کرے، لیکن ایران کا ایسا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اشارہ دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کا ملک نئے جوہری مذاکرہ کا خواہش مند نہیں ہے۔ حالانکہ امریکی صدر ٹرمپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ایران سے جلد ہی اس معاملے پر بات چیت ہوگی۔
ایران-اسرائیل جنگ کے دوران ایران پر امریکی حملہ سے حکومت ایران نے پہلے ہی سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے اس معاملے میں ایک تازہ بیان دیا ہے، جس میں کہا ہے کہ ’’اس (جوہری مذاکرہ) معاملے پر امریکہ سے بات چیت کا دروازہ بند ہے، کیونکہ امریکہ نے 3 جوہری ٹھکانوں پر 30 ہزار پاؤنڈ کا بم گرا کر بھاری غلطی کر دی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے ہوائی حملوں کا ایک تباہناک دور شروع کیا ہے، جس کے بارے میں تہران کا صاف ماننا ہے کہ اس کے جوہری تنصیبات کو ’بہت نقصان‘ ہوا ہے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ایک انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ نے مذکورہ بالا بیان دیا ہے۔ انھوں نے انٹرویو کے دوران واضح لفظوں میں کہا کہ مذاکرہ کو پھر سے شروع کرنے کی سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ عراقچی کا کہنا ہے کہ ’’مذاکرہ کو پھر سے شروع کرنے کے لیے نہ تو کوئی سمجھوتہ کیا گیا ہے، اور نہ ہی کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے، کوئی وعدہ بھی نہیں کیا گیا ہے، اور ہم نے مذاکرہ کو پھر سے شروع کرنے کے بارے میں بات بھی نہیں کی ہے۔‘‘
عباس عراقچی کا یہ بیان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے کچھ دنوں قبل دیے گئے اس بیان کے بعد آیا ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اائندہ ہفتہ تک مذاکرہ پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ (جنھوں نے اپنی پہلی مدت کار کے دوران 2015 کے جوہری معاہدی سے امریکہ کو یکطرفہ طور پر باہر نکال لیا تھا) نے کہا کہ وہ تہران کے ساتھ ایک نئے معاہدہ کے لیے تیار ہیں۔ 2015 کی بات کی جائے تو امریکہ اس وقت جوہری معاہدے میں شامل فریقین میں سے ایک تھا، جس میں ایران پابندیوں میں راحت اور دیگر فائدوں کے بدلے میں اپنے یورینیم افزودگی پروگرام کی حدود پر متفق ہوا تھا۔ عراقچی نے کہا کہ فوجی مداخلت کرنے کے امریکی فیصلے نے ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے اسے مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔
اس درمیان جمعہ کی نماز میں کئی ائمہ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے گزشتہ دن کے پیغام پر زور دیا اور ظاہر کیا کہ جنگ میں اسرائیل پر ایران کی فتح ہوئی تھی۔ مولوی حمزہ خلیلی، جو ایران کے ڈپٹی چیف جسٹس بھی ہیں، نے تہران میں ایک دعائیہ اجلاس کے دوران قسم کھائی کہ عدالتیں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے ملزمین پر ’ایک خاص طریقے سے‘ مقدمہ چلائیں گی۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران ایران نے جاسوسی کے الزام میں پہلے سے حراست میں لیے گئے کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا، جس سے کارکنان میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ پھانسی کی لہر چلا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔