ان اسرائیلی اور امریکی حملوں نے جہاں امریکہ اور اسرائیل کی طاقت کی پول کھول دی ہے وہیں کئی چبھتے ہوئے سوالات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل کے حملے کا آغاز کرنے کی وجہ سے ایران کو ابتدائی طور پر کچھ نقصانات برداشت کرنا پڑے اور اس نے کئی بڑے فوجی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو کھو دیا۔ تاہم، نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد ایران نے بھرپور جوابی کارروائی کر کے اسرائیل کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ ہر حملے کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اسرائیل جو کسی بھی صورت میں اپنے لوگ مرتے نہیں دیکھنا چاہتا ہے اس کو جلدی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ آنے والے دن اچھے نہیں ہیں اور اس نے امریکہ سے مدد کی گہار لگائی۔
امریکہ نے اسرائیل کی مدد کی لیکن اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ جنگ اس کو ہی لڑنی پڑے گی۔ اسرائیل جو ایرانی حکومت کو بدلنے کا راگ الاپ رہا تھا اور یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ ایران جس کا پہلے سے ہی اتنا جانی اور مالی نقصان ہو گیا ہے وہ اس کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا، اس کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا اور ایران نے اسرائیل کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ایران کے اس جواب کی وجہ سے امریکہ کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑی اور اس نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔