صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری اور واشنگٹن کے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں جو تناؤ دیکھنے میں آرہا ہے، اس پر پاکستانی کافی خوش نظر آرہے ہیں۔
لیکن کیا یہ خوشی کا احساس واقعی جائز ہے اور کیا یہ برقرار رہ سکے گا؟ کچھ مبصرین پاک-امریکا تعلقات میں حالیہ تبدیلی کو نئی صف بندی اور سمت کی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ تاہم اگر اس ’صف بندی‘ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان چین سے دور ہو رہا ہے تو میرے خیال میں وہ لوگ غلط ہو سکتے ہیں۔
ایسا اس لیے ہے کیونکہ بیجنگ ایک ایسے قابل اعتماد شراکت دار اور دوست کا کردار ادا کررہا ہے جس پر اسلام آباد اپنی اقتصادی ضروریات اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔ پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا بھی اٹوٹ حصہ ہے۔
سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں انتہا پسند، جارح ہندو قوم پرست حکومت اندرون ملک اپنے فرقہ وارانہ مفادات کے لیے مسلسل پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے رہی ہے، جس کے تناظر میں پاکستان کو اپنے موجودہ جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے لاحق ممکنہ خطرات سے خود کو بچانے کے لیے مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔
یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے پاس کسی ایک فریق کا ساتھ دیے بغیر فوائد حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ امریکا کے برعکس، چین کے تعلقات نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر اقوام کے ساتھ بھی ایسے نہیں ہیں کہ جن کے لیے چین یہ مؤقف اپنائے کہ ’آپ یا تو ہمارا ساتھ دیں یا ہمارے حریف کا‘۔ چین کا نقطہ نظر زیادہ اہم اور عملی ہے کیونکہ اس وقت چین کی بنیادی توجہ اپنی معیشت کو بڑھانے اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت پر مرکوز ہے۔
عوام کو سیاسی آزادی نہ دینے یا انسانی حقوق کا احترام نہ کرنے پر مغربی جمہوریتیں اکثر چین پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ لیکن شاذ و نادر ہی وہ تعریف کرتے ہیں کہ کس طرح چین نے صرف 40 سالوں میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔
اس وقت خاص طور پر جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس حوالے سے بہت سی مغربی جمہوریتیں ایسے اقدامات کی خاموش حمایت کر رہی ہیں جو نسل کش ہے اور یہاں تک کہ وہ اپنے ملک میں ان لوگوں کو خاموش کررہے ہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ایسے میں وہ جب آزادی کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ فلسطینیوں کو بنیادی آزادی سے محروم کیا جا رہا ہے جوکہ ان کا جینے کا حق ہے۔
اب تک دو عوامل پاکستان کے حق میں گئے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی خود پرست شخصیت کو بالکل صحیح اہمیت دی۔ اس نے انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ کیا اور کابل ایئر پورٹ ’ایبی گیٹ‘ بم دھماکے کے ایک ملزم کو فوری طور پر پکڑ کر امریکا کے حوالے کر کے ٹرمپ کے ’سخت رہنما‘ کی شبیہ کو مزید تقویت دی۔ یہ حملہ اگست 2021ء میں امریکی انخلا کے دوران ہوا تھا جس میں 13 امریکی فوجی اور تقریباً 200 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔
پھر مئی میں بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں حملے کے بعد بھارت نے پاکستان میں اہداف کو نشانہ بنایا تو امریکا نے دونوں فریقین سے کشیدگی کم کرنے کا کہا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جلد ہی مثبت جواب دیا جس سے خود پسند رہنما کی ’فتح‘ ملی۔ ٹرمپ بار بار امن ساز کے اپنے کردار کا ذکر کرتے نہیں تھک رہے۔ اس سے ان کی انا کو بے انتہا تسکین ملی۔
دوسری جانب حالت و واقعات پر گہری نظر رکھنے والوں کے نزدیک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دو ایسے کام کیے ہیں جس نے ٹرمپ کو ناراض کیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال اپنے دورہ امریکا کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات منسوخ کی تھی جو اس وقت صدارتی انتخاب کی مہم چلا رہے تھے۔
بھارت سختی سے تردید کرتا ہے کہ اس طرح کی کوئی ملاقات طے ہی نہیں تھی لیکن 17 ستمبر کو انتخابی مہم سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ مودی سے ملیں گے۔ سفارتی ذرائع کہتے ہیں کہ مودی کی دونوں انتخابی امیدواروں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس سے ملاقاتیں طے تھیں۔
کملا ہیرس کو کسی ضروری کام کی وجہ سے ملاقات منسوخ کرنا پڑی جس پر مودی کو ان کی ٹیم نے مشورہ دیا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ اپنی طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کردیں تاکہ ایک امیدوار سے مل کر یہ تاثر نہ جائے کہ وہ کسی ایک کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو اس نے بلاشبہ ٹرمپ کی انا کو ٹھیس پہنچائی ہوگی۔
اس کے بعد مئی میں پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت میں ایک اور مسئلہ سامنے آیا۔ امریکی رہنما فون پر دونوں ممالک کو حالات کی مزید خرابی سے پہلے حالات کو پُرسکون کرنے کا کہہ رہے تھے اور دونوں ممالک نے وائٹ ہاؤس سے کہا بھی کہ وہ کشیدگی کم کریں گے۔ لیکن فضائی تصادم میں شرمناک انداز میں اپنے کئی طیارے کھونے کے بعد، جس کی وجہ سے بھارت کو دو روز تک اپنی فضائیہ کو گراؤنڈ کرنا پڑا، اس نے جوابی کارروائی کی صورت میں پاکستان پر میزائل داغے۔
10 مئی کو چند ہی گھنٹوں میں پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا۔ اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کو بتایا کہ بھارت کی جانب سے دوہرے استعمال کے میزائل داغے گئے جوکہ جوہری وار ہیڈ بھی رکھتے تھے، ایسے میں پاکستان نے صرف امریکا کی درخواست پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔
مبینہ طور پر اس سے بھی امریکا اور بھارت کے تعلقات خراب ہوئے کیونکہ جیسے بھارت نے کشیدگی کم کرنے کا کہہ کر حملہ کیا، اس سے شاید ٹرمپ کو اپنی بےعزتی محسوس ہوئی ہوگی۔ اگرچہ بھارت بعدازاں امریکا کے کہنے پر راضی ہوا اور ٹرمپ جنگ بندی کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن تلخیاں پہلے ہی جنم لے چکی تھیں۔
ہوسکتا ہے کہ ان واقعات نے امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مزید خراب کیا ہو لیکن یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ عالمی طاقتوں کے درمیان تمام تعلقات کا انحصار صرف اس طرح کے چھوٹے مسائل پر ہے پھر چاہے کچھ رہنماؤں کی انا کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
امریکا اور بھارت کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کی برکس کی رکنیت ہے جس گروپ میں روس، چین، برازیل، جنوبی افریقہ اور کچھ چھوٹے ممالک شامل ہیں جوکہ ایک تجارتی بلاک بناتے ہیں۔ یہ گروپ ایک نئی کرنسی کا خیال آگے بڑھانا چاہتا ہے اور ایسی تجارت چاہتا ہے جو امریکی ڈالر پر منحصر نہ ہو۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈالر کی اہمیت کم ہوجائے گی اور ممالک ادائیگی کے لیے نئی طریقوں کو استعمال کرکے امریکی پابندیوں سے بچ سکتے ہیں۔ امریکا کے نزدیک یہ ناقابلِ برداشت ہے حالانکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جلد یا بدیر ہوجائے گا۔
امریکا چین سے مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کا ساتھ دے رہا ہے جبکہ نئی دہلی کواڈ گروپ کا بھی حصہ ہے جس میں امریکا، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی برکس کی رکنیت، ایشیا میں مغرب کے اسٹریٹجک حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ہوسکتا ہے کہ بھارت نے زیادہ تر فیصلے اس بنیاد پر کیے ہوں کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے لیکن اب اس پر ایک طرف چننے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
لہٰذا جب ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر بھارت کا مذاق اڑایا، اس کی معیشت کے بارے میں پیش گوئیاں کیں اور ٹیرف میں اضافہ کیا تو غالباً یہ بھارت پر دباؤ بڑھانے کا طریقہ تھا۔ اگر یہ کام کرتا ہے تو شاید پاکستان کی خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہمیں ایک بہت ہی دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملے گی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔