استاد: نسلوں کا معمار

AhmadJunaidBlogs & ArticlesJuly 9, 2025359 Views

احمد جنید

استاد ایک ایسا کردار ہے جو صرف معلومات کی منتقلی تک محدود نہیں رہتا بلکہ انسانی شخصیت کی تعمیر، فکر کی نشوونما، اور معاشرتی اخلاقیات کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ استاد کا مقام معاشرے میں ہمیشہ بلند رہا ہے کیونکہ وہ نسلوں کی ذہن سازی کرتا ہے، ان کے کردار میں نکھار لاتا ہے، اور ان کی زندگی کی سمت متعین کرتا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے رہنما، سائنس دان، فلسفی، اور مصلحین بھی کسی نہ کسی استاد کے شاگرد رہے ہیں جنہوں نے ان کی فکری بنیاد رکھی اور انہیں دنیا میں مثبت تبدیلی کا سبب بنایا۔ایک استاد کا کردار صرف نصاب کی تعلیم دینے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ طلبہ کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانتا ہے، ان کی رہنمائی کرتا ہے، اور انہیں بہتر انسان بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ استاد اپنے شاگردوں کے لیے ایک آئینہ ہوتا ہے جس میں وہ اپنا مستقبل دیکھ سکتے ہیں۔ ایک اچھا استاد نہ صرف معلومات کا منبع ہوتا ہے بلکہ وہ ایک رہنما، مربی، اور مخلص دوست بھی ہوتا ہے جو ہر موڑ پر اپنے شاگرد کا ساتھ دیتا ہے۔ استاد کی باتوں میں تاثیر، لہجے میں نرمی، اور انداز میں وقار ہوتا ہے جو دلوں کو چھو لیتا ہے۔تعلیم و تربیت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور اس تعلیم و تربیت کا محور و مرکز استاد ہی ہوتا ہے۔ استاد قوموں کے معمار ہوتے ہیں جو خام ذہنوں کو تراشتے ہیں اور انہیں علم، فہم، تہذیب، اور شعور سے آراستہ کرتے ہیں۔ ان کی محنت کا اثر وقتی نہیں بلکہ طویل المدتی ہوتا ہے۔ ایک استاد جو طالبعلم کو وقت پر صحیح رہنمائی دے دیتا ہے، وہ طالبعلم بعد میں ایک کامیاب انسان بن کر استاد کی محنت کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے۔ استاد کی تربیت سے نہ صرف ایک فرد بلکہ ایک پورا خاندان اور بعد میں ایک پوری قوم مستفید ہوتی ہے۔استاد کی ذمہ داری صرف تدریس تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک مکمل ادارہ ہوتا ہے جو ہر لمحہ اپنے طلبہ کے فائدے کے لیے سوچتا ہے۔ وہ ان کی ذہنی، جسمانی، اخلاقی، اور روحانی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے۔ استاد اپنے طلبہ کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی خوبیوں کو ابھارتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور انہیں زندگی کے میدان میں کامیابی کے لیے تیار کرتا ہے۔ استاد کی حیثیت ایک مشعل راہ کی سی ہوتی ہے جو اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر ابھرتی ہے۔اسلام نے بھی استاد کے مرتبے کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یہ بات اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ معلمی ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ قرآن پاک کی پہلی وحی کا آغاز بھی تعلیم سے ہوا، “اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ”۔ یہ تعلیم کی اہمیت کا بین ثبوت ہے۔ ایک استاد جب نیک نیتی اور خلوص سے اپنے شاگردوں کو پڑھاتا ہے تو وہ نہ صرف علم منتقل کرتا ہے بلکہ برکت اور نور بھی پھیلاتا ہے۔استاد کا انداز، رویہ، اور بات چیت کا طریقہ شاگردوں کے ذہن و قلب پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ ایک شفیق، مہربان، اور انصاف پسند استاد نہ صرف علم دیتا ہے بلکہ طلبہ کے دلوں میں عزت اور محبت بھی پیدا کرتا ہے۔ ایک استاد کی سختی اگر محبت میں لپٹی ہوئی ہو تو وہ شاگرد کی تربیت کا بہترین ذریعہ بن جاتی ہے۔ استاد کا کردار طلبہ کے لیے ایک معیار ہوتا ہے، اور وہ اکثر اپنے استاد کو ایک رول ماڈل کے طور پر اپناتے ہیں۔آج کے جدید دور میں جہاں سائنسی ترقی نے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا ہے، وہاں استاد کا کردار اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، اور معلومات کے سیلاب میں طلبہ کی رہنمائی اور صحیح سمت متعین کرنا صرف ایک باشعور استاد ہی کر سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ نے جہاں معلومات تک رسائی آسان بنا دی ہے، وہیں اس نے غیر مصدقہ اور بے فائدہ معلومات کو بھی عام کر دیا ہے۔ اس ماحول میں استاد کا فریضہ ہے کہ وہ طلبہ کو علمی طور پر مضبوط کرے اور انہیں درست علم کی پہچان سکھائے۔ایک استاد کا اثر محض کلاس روم تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ زندگی بھر کے لیے شاگرد کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ایک استاد کی ایک بات، ایک نصیحت، یا ایک مسکراہٹ شاگرد کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ استاد اپنے شاگردوں کی کامیابی میں خود کو خوش دیکھتا ہے، ان کی ترقی کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے، اور ان کی ناکامی پر دل سے رنجیدہ ہوتا ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ اعتماد، محبت، اور خلوص پر قائم ہوتا ہے۔ایک مثالی استاد خود بھی سیکھنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ علم کا سمندر لامتناہی ہے اور اسے ہمیشہ سیکھتے رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنے شاگردوں کو بہتر طور پر علم فراہم کر سکے۔ وہ مطالعہ، مشاہدہ، اور تجربے کے ذریعے خود کو بہتر بناتا ہے اور اپنی معلومات کو وقت کے ساتھ تازہ رکھتا ہے۔ استاد اپنے علم، تجربے، اور فہم سے طلبہ کی فکری تربیت کرتا ہے اور ان میں تنقیدی سوچ، تجزیہ کرنے کی صلاحیت، اور مسائل کا حل نکالنے کا ہنر پیدا کرتا ہے۔ایک سچا استاد شاگردوں کو صرف رٹنے پر نہیں ابھارتا بلکہ انہیں سوچنے، سوال کرنے، اور نیا علم پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ طلبہ کے سوالات کو دبانے کی بجائے ان کے تجسس کو سراہتا ہے اور انہیں کھلے ذہن سے سیکھنے کی تربیت دیتا ہے۔ استاد کا مقصد صرف امتحان میں اچھے نمبر دلوانا نہیں ہوتا بلکہ ان کے ذہنوں میں علم کی شمع روشن کرنا ہوتا ہے جو عمر بھر روشنی دیتی رہے۔آج کے تعلیمی نظام میں، بدقسمتی سے، بعض اوقات استاد کو وہ مقام اور وسائل میسر نہیں آتے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ کم تنخواہ، ناکافی سہولیات، اور غیر یقینی حالات کے باوجود اپنی ذمہ داریاں نہایت خلوص سے نبھاتے ہیں۔ یہ ان کی عظمت کی علامت ہے کہ وہ معاشرتی اور اقتصادی رکاوٹوں کے باوجود علم کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ایک معاشرہ اگر اپنے اساتذہ کی قدر نہیں کرتا تو وہ خود اپنی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔اساتذہ کی تربیت، ان کی حوصلہ افزائی، اور ان کے کام کا اعتراف ضروری ہے تاکہ وہ مزید دلجمعی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ استاد کا ادب کریں، ان سے سیکھنے کا شوق رکھیں، اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ ایک مقدس رشتہ ہے جو سچائی، خلوص، اور علم پر قائم ہوتا ہے۔ اگر یہ رشتہ مضبوط ہو تو پوری قوم ترقی کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔ایک استاد کی اہمیت کو ہم اس سے بھی جان سکتے ہیں کہ جب بھی کوئی کامیاب انسان اپنی کامیابی کی داستان سناتا ہے تو وہ استاد کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ استاد کا کردار پس منظر میں ہوتا ہے لیکن اس کا اثر ہمیشہ پیش منظر پر رہتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے اسکالرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، اور رہنما جب بھی اپنے سفر کا آغاز بتاتے ہیں تو اس میں کسی نہ کسی استاد کی رہنمائی شامل ہوتی ہے۔ یہ استاد کی علمی روشنی ہوتی ہے جو طالبعلم کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔معاشرتی اصلاح اور اخلاقی بہتری میں بھی استاد کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ استاد صرف تعلیم ہی نہیں دیتا بلکہ ایک بہتر انسان کی تشکیل کرتا ہے جو اپنے فرائض، حقوق، اور سماجی ذمہ داریوں سے واقف ہوتا ہے۔ ایک استاد جب طلبہ میں دیانت، ایمانداری، رواداری، اور سچائی جیسے اوصاف پیدا کرتا ہے تو وہ درحقیقت ایک بہتر معاشرے کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے۔ استاد کے کردار میں ایک ایسی طاقت ہوتی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتی ہے اور ذہنوں کو بدل دیتی ہے۔ایک استاد کا سب سے بڑا انعام اس کے شاگرد کی کامیابی اور اس کی زبان سے نکلی ہوئی ایک دعا ہوتی ہے۔ جب ایک شاگرد دل سے استاد کے لیے دعا کرتا ہے تو وہ دعا عرش تک پہنچتی ہے اور استاد کی زندگی میں برکت بن کر اترتی ہے۔ استاد کی عظمت الفاظ سے نہیں ناپی جا سکتی، وہ ایک جذبہ ہے، ایک خدمت ہے، اور ایک مشن ہے جسے ہر سچا استاد عمر بھر نبھاتا ہے۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے، ہمارے نوجوان باشعور، مہذب، اور علم دوست بنیں تو ہمیں اساتذہ کی قدر کرنی ہو گی۔ ہمیں انہیں وہ عزت، سہولیات، اور مقام دینا ہو گا جس کے وہ حق دار ہیں۔ ایک استاد کو جب عزت دی جاتی ہے تو وہ نسلوں کو سنوار دیتا ہے۔ استاد ایک چراغ کی مانند ہوتا ہے جو خود جلتا ہے مگر دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔ یہ روشنی ہی دراصل علم، تربیت، اور شعور کی وہ طاقت ہے جو ایک انسان کو انسان بناتی ہے۔اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو روشن مستقبل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں آج کے استاد کو مضبوط کرنا ہوگا، اسے وسائل مہیا کرنے ہوں گے، اور اسے وہ مقام دینا ہو گا جو وہ واقعی مستحق ہے۔ ایک استاد ایک دنیا بدل سکتا ہے، بشرطیکہ اسے موقع دیا جائے، سنا جائے، اور اس کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...