ایک استاد ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جو صرف کتابی علم ہی نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے۔ استاد کا رشتہ شاگرد کے ساتھ محض درس و تدریس تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ رشتہ ایک روحانی اور فکری رشتہ بن جاتا ہے۔ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں والدین کے بعد سب سے بلند مانا گیا ہے کیونکہ وہ نہ صرف علم دیتا ہے بلکہ انسان کی سوچ، طرزِ زندگی اور کردار کی تعمیر بھی کرتا ہے۔ معاشرے کی ترقی اور بہتری کا راز بھی ایک مخلص اور قابل استاد کی تربیت میں پنہاں ہے۔ وہ خام ذہنوں کو تراش کر گوہر بناتا ہے اور ایک بچے کو مستقبل کا معمار بناتا ہے۔
استاد صرف وہ نہیں ہوتا جو کلاس روم میں کتابیں پڑھاتا ہے بلکہ وہ ہر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی دوسرے کو کچھ سکھاتا ہے، سمجھاتا ہے یا راہ دکھاتا ہے۔ ایک اچھا استاد اپنے شاگرد کی ذہنی سطح کو پہچانتا ہے اور اس کی قابلیت کے مطابق اسے علم دیتا ہے۔ وہ بچوں میں علم کی پیاس جگاتا ہے، ان میں جستجو، تجسس، تحقیق اور سوال کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ استاد بچوں کی غلطیوں پر انہیں مایوس یا شرمندہ کرنے کی بجائے ان کی اصلاح کا ہنر رکھتا ہے۔ وہ محبت اور نرمی سے بچوں کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
ایک قابل اور دیانتدار استاد اپنے شاگردوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی شخصیت، اس کے رویے اور اس کی باتوں کا شاگردوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ شاگرد استاد کی باتوں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، اس لیے استاد کی زبان، عمل، خیالات اور کردار میں سچائی، شفافیت اور مثبتیت ہونی چاہیے۔ استاد کا ہر لفظ، ہر حرکت بچوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر استاد جھوٹ بولے یا بے ایمانی کرے تو اس کے شاگرد بھی اسی راہ پر چلنے لگتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایک استاد اگر سدھر جائے تو پوری نسل سنور جاتی ہے۔
تعلیم و تربیت کے شعبے میں استاد کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ دنیا کے عظیم مفکرین، دانشور اور مذہبی رہنما بھی استاد کی عزت اور مقام پر زور دیتے آئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں استاد کو روحانی والد قرار دیا گیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ “جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا، وہ میرا آقا ہے۔” یہ قول استاد کے احترام کی انتہا کو بیان کرتا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے بھی تعلیم دینے والے کو خیر کا سبب قرار دیا ہے۔ اسی لیے اسلامی تہذیب میں استاد کی عزت و تکریم ایک دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک استاد کی محنت اکثر پس پردہ رہتی ہے۔ وہ نہایت خاموشی سے دن رات محنت کرتا ہے تاکہ اس کے شاگرد کامیاب ہوں، وہ آگے بڑھیں، معاشرے میں باوقار مقام حاصل کریں۔ جب شاگرد کامیاب ہوتے ہیں، بڑی بڑی منزلیں طے کرتے ہیں، تو پیچھے رہ جانے والا استاد سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ اس کی خوشی صرف اس بات میں ہوتی ہے کہ اس کی دی ہوئی رہنمائی نے کسی کی زندگی بدل دی۔ استاد کو اکثر نہ تو شہرت ملتی ہے نہ دولت، لیکن اس کا سب سے بڑا انعام یہ ہوتا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو سنوارتا ہے اور قوم کے لیے عظیم انسان تیار کرتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے، وہاں استاد کا کردار بھی مزید پیچیدہ اور اہم ہو گیا ہے۔ اب صرف نصاب پڑھا دینا کافی نہیں، بلکہ بچوں کی ذہنی صحت، اخلاقیات، سوشل میڈیا کے اثرات، اور تیز رفتار زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی استاد کو تیار رہنا پڑتا ہے۔ استاد کو اب ایک ماہرِ نفسیات، ایک رہنما، ایک دوست اور ایک قائد کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔ یہ دور استاد سے نہ صرف علم بلکہ بصیرت، سمجھ بوجھ، اور سیکھنے کی مسلسل لگن کا تقاضا کرتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں استاد کی وہ عزت اور مقام کم ہوتا جا رہا ہے جو کبھی اس کا خاصا تھا۔ پہلے شاگرد استاد کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے، استاد کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے، ان کی خدمت کو باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ آج اکثر تعلیمی اداروں میں استاد محض تنخواہ دار ملازم بن کر رہ گیا ہے۔ طلبہ استاد کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں، والدین استاد کی شکایت لے کر آتے ہیں، اور معاشرہ استاد کی اہمیت کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف تعلیم کے معیار کو متاثر کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کی تربیت پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔
اگر ہم ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے استاد کو وہ مقام اور عزت واپس دینی ہو گی جو اس کا حق ہے۔ استاد کو معاشرے کا رہنما اور معمار سمجھنا ہو گا۔ ہمیں ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو استاد کو سہولیات، تربیت اور عزت دے تاکہ وہ اپنا کام دلجمعی سے کر سکے۔ والدین، طلبہ، حکومتی ادارے اور معاشرہ سب کو استاد کے ساتھ احترام، تعاون اور اعتماد کا رشتہ قائم کرنا چاہیے تاکہ استاد بھی اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کر سکے۔
ایک استاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر شعبے میں کامیاب انسان کے پیچھے کسی نہ کسی استاد کی رہنمائی اور تربیت موجود ہوتی ہے۔ چاہے وہ سائنسدان ہو، ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، سیاستدان ہو یا ادیب، سب کی ابتدائی تعلیم ایک استاد ہی دیتا ہے۔ اس لیے ایک استاد صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک پوری نسل کو سنوارنے والا ہوتا ہے۔ اس کے الفاظ، اس کی سوچ اور اس کا کردار نسلوں تک اثر انداز ہوتا ہے۔
آخر میں، اگر ہم استاد کو وہ عزت اور مقام دے دیں جو اس کا حق ہے، تو یقیناً ہمارا تعلیمی نظام بھی بہتر ہو جائے گا، ہمارے بچے بھی نیک اور بااخلاق ہوں گے، اور ہمارا معاشرہ بھی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گا۔ استاد چراغ کی مانند ہوتا ہے جو خود جلتا ہے تاکہ دوسروں کو روشنی دے سکے۔ ہمیں ایسے چراغوں کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ انہی کی بدولت ہم جہالت کے اندھیروں سے نکل کر علم کی روشنی تک پہنچتے ہیں۔ استاد ایک نعمت ہے، ایک رحمت ہے، ایک سرمایہ ہے، جسے پہچاننے اور سنوارنے کی اشد ضرورت ہے۔