روسی تیل خریدنے کے بدلے میں ہندوستان پر امریکہ کی جانب سے عائد کیا گیا اضافی 25 فیصد ٹیرف بھی نافذ ہو چکا ہے۔ لیکن ایک محاذ پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ انہوں نے اس ٹیرف کو ادویات کی درآمد پر نافذ نہیں کیا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہندوستان کی ادویات سستی صحت کی خدمات فراہم کرانے میں کافی مددگار ہوتی ہیں۔ خاص طور سے ہندوستان کی جنرک ادویات کا اثر امریکہ میں کافی زیادہ ہے، جس کی وجہ سے فارما کو ٹیرف سے باہر رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
ہندوستانی فارماسیوٹیکل الائنس کے جنرل سکریٹری سدرشن جین نے ’اے این آئی‘ کی رپورٹ میں کہا کہ ہندوستانی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو امریکہ کے حالیہ ٹیرف انفورسمنٹ سے باہر کیا گیا ہے، کیونکہ جنرک ادویات امریکہ میں سستی صحت کی خدمات کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں۔ یہ شعبہ فی الحال آرٹیکل 232 کے تحت جانچ کے تحت زیر جائزہ ہے۔ اس کے علاوہ بسَو کیپیٹل کے شریک بانی سندیپ پانڈے نے ’منٹ‘ کی رپورٹ میں کہا کہ امریکہ کو ہندوستان کے ذریعہ درآمد شدہ ادویات کا حصہ تقریباً 6 فیصد ہے۔ اس کی وجہ سے امریکی میڈی کیئر سسٹم کا ہندوستان پر کافی انحصار ہے۔
27 اگست 2025 کو ہندوستان پر 50 فیصد ٹیرف عائد ہونے کے بعد، ہندوستانی فارماسیوٹیکل برآمد کنندگان نے اپنے شِپمنٹ کو آسٹریلیا منتقل کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے امریکی میڈیکیئر سسٹم کے استحکام کو خطرہ ہونے کا خدشہ تھا۔ سندیپ پانڈے نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستانی ادویات کو 50 فیصد ٹیرف سے باہر رکھا، جبکہ مالی سال 2025 میں ہندوستان نے اس کے کُل ادویات کی برآمدات کا تقریباً 40 فیصد حصہ برآمد کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنی دوا سپلائی کے لیے ہندوستان پر بہت زیادہ منحصر ہے، اور اس کی تقریباً نصف جنرک ادویات ہندوستان سے آتی ہیں۔ صحت کی خدمات میں اہم کردار اور امریکہ میں پہلے سے ہی کافی مہنگی صحت کی خدمات کے پیش نظر ان کا خیال ہے کہ ادویات پر فی الحال کوئی ٹیرف عائد کیے جانے کی امید کم ہے۔
کوٹک انسٹی ٹیوشنل ایکویٹیز کے مطابق اگر ادویات پر بھی ٹیرف عائد کیا جاتا تو ہندوستانی دوا کمپنیوں کو اپنے امریکی پورٹ فولیو میں کافی کٹوتی کرنی پڑ سکتی تھی (کچھ معاملوں میں مکمل طور سے باہر نکالنا پڑ سکتا تھا) اور بڑھی ہوئی قیمت کا بوجھ مریضوں پر ڈالنے جیسے دیگر آپشنز پر غور کرنا پڑ سکتا تھا۔ ہندوستانی کمپنیوں کے امریکی جنرک پورٹ فولیو میں کئی مالیکیولس پہلے سے ہی بہت کم منافع دے رہے ہیں، اس لیے کمپنیوں کو امریکہ میں ان کی فروخت بند کرنی پڑ سکتی تھی، خاص کر قیمتوں میں مسلسل گراوٹ کو دیکھتے ہوئے۔
امریکہ میں مینوفیکچرنگ فیسیلیٹی قائم کرنے میں لگنے والے طویل وقت (ان سہولیات کے شروع ہونے تک پالیسیاں بدل سکتی تھیں) اور اس سے اہم بات ہائی کاسٹ اسٹرکچر کے پیش نظر انہیں ہندوستانی کمپنیوں کے ذریعہ امریکہ میں مینوفیکچرنگ فیسیلیٹی بڑھانے کے لیے کوئی خاص کوشش کرنے کی امید نہیں ہے۔ سب سے خراب حالت میں جہاں کمپنیاں اپنے امریکی جنرک پورٹ فولیو میں بہت زیادہ کٹوتی کرتی ہیں، بروکریج کا ماننا ہے کہ اس سے کافی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ ہندوستانی کمپنیوں کو ہندوستان اور یورپی یونین/آر او ڈبلیو میں ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے مزید جارحانہ انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر قیمتوں کے اضافہ میں مقابلہ بڑھ سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔